اے آئی ماڈل کا استعمال کرنے والے برانڈ پر تنقید: فیشن انڈسٹری سے جڑی شخصیات کا مؤقف سامنے آگیا

اے آئی ماڈل کا استعمال کرنے والے برانڈ پر تنقید: فیشن انڈسٹری سے جڑی شخصیات کا مؤقف سامنے آگیا
فوٹو: اسکرین گریب

حال ہی میں پاکستان کی نامور کپڑوں کی برانڈ نے اپنی کیمپین میں اے آئی ماڈل کا استعمال کیا تھا جس پر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے برانڈ کو کافی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

 کچھ صارفین نے برانڈ پر تنقید کرتے ہوئے اسے ’کاسٹ کٹنگ‘ کی وجہ سے اٹھایا گیا قدم تصور کیا تو کچھ اس نئی تبدیلی میں انسانی احساسات کے متلاشی نظر آئے۔

کچھ صارفین کی جانب سے یہ سوال بھی اٹھایا گیاکہ اے آئی ماڈل کے ذریعے برانڈ نے اپنا خرچہ بچایا ہے تو کیا کپڑوں کی قیمتوں میں بھی کمی کی جائے گی؟

جیو ڈیجیٹل نے فیشن انڈسٹری کی نامور شخصیات سے جب اس تجربے سے متعلق سوالات کئے تو اس حوالے سے مختلف آرا سامنے آئیں۔

2023 میں پہلی بار پاکستان کی جانب سے مس یونیورس مقابلوں میں جانے والی ماڈل ایریکا رابن نے جیو ڈیجیٹل کو بتایا کہ انہیں اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر بذریعہ ڈی ایم موصول ہونے والے پیغامات کے ذریعے اے آئی ماڈل کے ساتھ کئے جانے والے کیمپین شوٹ کا پتہ چلا۔

انہوں نے کہا کہ ’لوگوں نے مجھے انباکس میں اس کیمپین کی تصاویر بھیجیں۔ مجھے لگتا ہے کہ کہ اگر اے آئی کو  بحیثیت  ٹول فیشن انڈسٹری میں استعمال کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں  لیکن جو کام انسانی ماڈل کا ہے وہ شاید انسان ہی بہتر طور پر کرسکتا ہے’۔

ایریکا نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک انسانی ماڈل اپنا کام کرنا جانتا ہے لہذا اسے بار بار سمجھانے کی ضرورت نہیں،  اس کے برعکس اے آئی ماڈل کو ہر ایک ایکشن پرامٹ کے ذریعے سمجھانے کی ضرورت پڑے گی، اس لحاظ سے انسانی ماڈل کے ساتھ کام کرنا زیادہ آسان ہے۔

اس سوال پر کہ کیا انسانی ماڈلز  زیادہ قیمت وصول کرتے ہیں اس لیے برانڈز  اے آئی ماڈلز کی طرف جارہے ہیں؟

ایریکا نے جواب دیا کہ ’مجھے نہیں پتہ لوگ ماڈلنگ کے پروفیشن کو ایسا کیوں سمجھتے ہیں کہ ماڈل زیادہ قیمت لیتے ہیں۔ ہم 8 گھنٹے سردی گرمی دن رات کام کررہے ہیں، مطلب یہ نہیں کہ اور کوئی نہیں کرتا لیکن ماڈلنگ ایک مشکل کام ہے۔ اگر ہم اس کی قیمت لیتے ہیں تو نتائج بھی ویسے ہی ملتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب کوئی کسٹمر کسی برانڈ کی کیٹلوگ میں ایک ماڈل یا ایکٹر کا چہرہ دیکھتا ہے تو  اسے ایک تعلق محسوس ہوتا ہے جو  شاید اے آئی ماڈل کو دیکھ کر محسوس نہیں کیا جاسکتا۔

ایریکا نے کہا کہ  ’بل بورڈز پر یا کیٹلوگ میں جب کسٹمر ماہرہ خان یا ہانیہ عامر جیسی اداکاراؤں کا چہرہ دیکھتے ہیں تو ان کا بھی دل چاہتا ہے کہ وہ بھی وہی لباس خریدیں، یہ احساس صرف انسان ہی محسوس کرسکتے ہیں’۔

فیشن ڈیزائنر  پریشے عدنان کے خیالات اس حوالے سے مختلف ہیں اور وہ یہ سمجھتی ہیں کہ کافی حد تک اب اے آئی انسانی ماڈلز کو تبدیل کرچکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ’یہ ایک ڈیجیٹل دنیا ہے اور اب دنیا بھر میں اے آئی کا استعمال ہورہا ہے۔ عالمی سطح پر نامور برانڈز اے آئی سے بنے ماڈلز کا استعمال کررہے ہیں اور یہ ایک مثبت قدم ہے، مجھے لگتا ہے کہ اب تو کافی حد تک ہم ماڈلز کو اے آئی ماڈلز سے تبدیل کرچکے ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ اے آئی مکمل طور پر فیشن انڈسٹری سے انسانی ماڈلز کا خاتمہ کردے گا لیکن انسانوں کو سیکھنا ہوگا کہ اسے کس حد استعمال کیا جاسکتا ہے‘۔

البتہ پریشے عدنان کواے آئی ماڈلز میں ایک کمی نظر آتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’اے آئی ماڈلز  میں مسئلہ یہ ہے کہ یہ بہت زیادہ پرفیکٹ ہیں۔ ہم انسان اتنے پرفیکٹ نہیں اور  اسی لیے ہم سے اتنی پرفیکشن قبول نہیں کی جارہی۔ یہی وجہ ہے کہ جس برانڈ نے اے آئی ماڈل کے ساتھ کیمپین کی  ہے اسے تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیوں کہ لوگ اسے نقلی ہی تصور کررہے ہیں‘۔

بحیثیت ڈیزائنر  پریشے یہ سمجھتی ہیں کہ جہاں اے آئی ٹولز  ان کے ورک ٹاسک کو آسان بناتے ہیں وہیں اگر اے آئی کے استعمال سے برانڈ کی لاگت میں کمی آسکتی ہے تو ایک ڈیزائنر کو اور کیا چاہیے  لیکن کیا اس سے بننے والی پروڈکٹ کی قیمت میں بھی کمی واقع ہوگی؟

انہوں نے کہا کہ ‘ہم معاشی مسائل کا شکار ملک میں رہتے ہیں جہاں پیٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کررہی ہیں۔ کپڑے کی اور  رنگائی کی قیمتیں گزشتہ چند سالوں میں دو سے تین گنا بڑھ چکیں ہیں، ایسے میں اگر مجھے اے آئی سے کم خرچ پر پروڈکٹ بنانے میں مدد مل رہی ہے تو کیا برائی ہے’؟

پریشے نے کہا کہ ’خود جاکر کپڑا لے کر آپ کچھ سلوائیں تب بھی وہی بات ہے، میرے خیال سے تو برانڈز پر ملنے والے پروڈکٹس اس اعتبار سے مناسب قیمت پر دستیاب ہیں‘۔

پریشے جہاں ٹیکنالوجی کا فیشن انڈسٹری میں استعمال اچھا سمجھتی ہیں وہیں انہیں انسانی ٹیم کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ بھی زیادہ تسلی بخش لگتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جب کسی ڈیزائن میں انسان کو دکھاتی ہوں تو جواب میں جو تاثرات ملتے ہیں وہ کسی مشین سے محسوس نہیں کیا جاسکتے‘

نامور اسٹائلسٹ تابش خواجہ کا اس بارے میں خیال ہے کہ فیشن انڈسٹری میں اگر اسی طرح اے آئی کا اثر و رسوخ بڑھتا گیا تو بے روزگاری بھی بڑے گی۔

تابش خواجہ  نے بتایا کہ’ایک انڈسٹری جس میں ماڈل، میک اپ آرٹسٹ، اسٹائلسٹ، فوٹوگرافر اور کریٹیو ٹیم ساتھ کام کرتے ہیں اور  ہر ایک چیز کو انسانی آنکھ سے دیکھ کر تجربہ کرتے ہیں۔ یہ تمام افراد اور ان کی نوکریاں کہاں جائیں گی؟ میں یہ سمجھتا ہوں کہ کسی بھی ٹیکنالوجی سے اگر لوگوں کو  روزگار مل رہا ہے تو اس سے اچھی کیا بات ہے؟ لیکن اگر باصلاحیت لوگ بے روزگار ہوجائیں تو کیا ہوگا’؟

تابش کا خیال ہے کہ اے آئی کا فیشن انڈسٹری میں استعمال بے روزگاری کو جنم دے گا وہیں تکینیکی شعبے میں نوکریوں کے نئے مواقع ملیں گے۔

تابش کا کہنا تھا کہ’فیشن انڈسٹری میرے نزدیک احساسات کی دنیا ہے جہاں ہر زاویہ اور ہر احساس کے مختلف لوگ کام کرتے ہیں، اے آئی سے آپ یہ تو پوچھ سکتے ہیں کہ کون سا رنگ مجھ پر اچھا لگ رہا ہے لیکن اس رنگ کو زیب تن کرکے بحیثیت انسان آپ کیسے لگ رہے ہیں یہ اے آئی نہیں بتا سکتا، اس کے لیے  آپ کو انسان کی ضرورت پڑے گی کیوں کہ ہم انسانوں کے درمیان رہتے ہیں یہ روبوٹک ورلڈ نہیں ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ اے آئی کا فیشن انڈسٹری میں استعمال بڑھتا گیا تو انسانی تعلق اور احساسات کی جگہ ختم ہوجائے گی جو انڈسٹری کی روح سمجھی جاتی ہے۔ 

DATE . Oct/29/2025

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top