بھارت میں وقف جائیدادیں مودی حکومت کے نشانے پر

نریندر مودی کی قیادت میں بھارت تیزی سے ایک انتہا پسند ہندو ریاست میں تبدیل ہوچکا ہے،بھارت میں وقف جائیدادیں مودی حکومت کے نشانے پر ہیں۔
حال ہی میں بی جے پی حکومت نے مسلم وقف املاک پر قبضے کے لیے ایک نیا متنازعہ قانون متعارف کروایا ہے،بھارت میں 8 لاکھ 72 ہزار سے زائد وقف جائیدادیں موجود ہیں، جن کی مجموعی مالیت تقریباً 14 ارب ڈالر ہے۔
یہ قانون لاکھوں وقف جائیدادوں بشمول مساجد، قبرستانوں اور یتیم خانوں کو حکومتی کنٹرول میں لینے کا ایک گھناؤنا منصوبہ ہے، مودی حکومت کا وقف قانون نافذ کرنا آئین کے آرٹیکل 25، 26 اور 14 کی خلاف ورزی ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام مسلمانوں کے مذہبی اور ثقافتی ورثے پر براہ راست حملہ ہے،حکومت ہندو مذہبی ٹرسٹس کو تحفظ دے رہی ہے جبکہ مسلم املاک کو نشانہ بنایا جا رہا ہے،دہلی اور ممبئی کی تاریخی وقف جائیدادیں بھی اس بل کی لپیٹ میں آ چکی ہیں،دہلی کی 123 وقف جائیدادیں جن میں پارلیمنٹ سٹریٹ مسجد بھی شامل ہے حکومتی قبضے کی زد میں آ سکتی ہیں۔
ایک اور متنازعہ معاملہ دہلی میں موجود مکیش امبانی کی رہائش گاہ کا ہے جو 1894 میں مسلم یتیم خانے کے لیے وقف کی گئی مگر غیر قانونی طریقے سے منتقل کر دی گئی ہے۔
وقف جائیدادوں پر قبضے کے خلاف بھارت میں مسلمان رہنماء سراپا احتجاج ہیں، اسدالدین اویسی کا کہنا ہے کہ یہ قانون وقف املاک کی حفاظت کے بجائے انہیں چھیننے کے لیے بنایا گیا ہے، جماعت اسلامی ہند کے رہنماء سید سعادت اللہ حسینی نے کہا ہے کہ بی جے پی کے اس بل سے مسلم مقدس مقامات کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
مودی حکومت کی مسلمانوں پر ظلم و بربریت کی کئی مثالیں موجود ہیں،آرٹیکل 370 کی منسوخی اور متنازعہ شہریت قانون (CAA) کے ذریعے مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی سازش کی جارہیں ہے۔
ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کے انہدام کے بعد ہندو مندر کی تعمیر کو سرکاری حمایت حاصل رہی،اگر مودی حکومت کے ظالمانہ اقدامات جاری رہے تو بھارت میں عدم استحکام اور فرقہ واریت مزید گہری ہو سکتی ہے،اقوام متحدہ کو بھارت میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا اور مسلمانوں کے بنیادی حقوق کی پامالی پر فوری توجہ دینی ہوگی۔

DATE . Apr/3/2025

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top