مذاکرات سے قبل ہوا میں سودے بازی کے ہتھیار بنانا؟ امریکہ کا حساب کتاب غلط ہے

بیجنگ () چین کی وزارت تجارت نے دو بیانات میں امریکہ سے درآمد کردہ متعلقہ اینلاگ آئی سی چپس کے خلاف اینٹی ڈمپنگ تحقیقات کے آغاز کا اعلان کیا اور امریکہ کی جانب سے انٹی گریٹڈ سرکٹ کے شعبے میں چین کے خلاف نافذ کردہ اقدامات کے خلاف امتیازی سلوک کی تحقیقات کے آغاز کا بھی اعلان کیا ۔ ایک روز قبل، امریکی وزارت تجارت نے چین کی متعدد سیمی کنڈکٹر اور بائیو ٹیکنالوجی کمپنیوں کو ایکسپورٹ کنٹرول کی “اینٹٹی لسٹ” میں شامل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یہ امریکی اقدام چین اور امریکہ کے درمیان اقتصادی و تجارتی مذاکرات کے قریب اٹھایا گیا، جس کا وقت دانستہ منتخب کیا گیا ہے، اور اس کے ارادے واضح ہیں جوکہ شرمناک ہے۔
پرانے حربے استعمال کرکے امریکہ نے دوبارہ “قومی سلامتی” کے نام پر یکطرفہ غنڈہ گردی کر تے ہوئے چین کے ساتھ مذاکرات سے قبل ہی سودے بازی کے ہتھیار بنانے کی کوشش کی،جو واضح طور پر امریکہ کی جانب سے غلط حساب کتاب ہے۔ بین الاقوامی تجارتی ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والا اور عالمی صنعتی چین کے استحکام کو نقصان پہنچانے والا ایسا طرز عمل، مذاکرات میں امریکہ کی بہتر پوزیشن کے حصول میں ہر گز مددگار ثابت نہیں ہو گا، البتہ یہ صرف خود امریکہ کو ہی نقصان پہنچائے گا۔
امریکہ کی جانب سے چین کی ہائی ٹیک انڈسٹری میں رکاوٹیں کھڑی کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سیمی کنڈکٹرز اور مصنوعی ذہانت سےلے کر نئی توانائی اور بائیو میڈیسن تک ، امریکہ نے قومی سلامتی کے تصور کا بےجا استعمال کرتے ہوئے “بے بنیاد” الزام تراشی کے ذریعے چینی کمپنیوں پر ” لانگ آرم “دائرہ اختیار استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ انتہائی مضحکہ خیز امر یہ ہے کہ امریکہ کا یہاں تک مطالبہ ہےکہ چینی کمپنیاں “چینی ساختہ” چپس کا استعمال بند کریں، جو کہ1.4 ارب چینی عوام کے ترقیاتی حق کی کھلم کھلا توہین ہے۔
تاریخ نے بارہا ثابت کیا ہے کہ بیرونی ناکہ بندی اور دباؤ چین کی اختراعات کو نہیں روک سکتے، بلکہ یہ چین کے سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں زبردست اندورنی محرک کو مزید ترقی دیتے ہیں ۔ 2018 کے بعد سے، امریکہ نے چین کے خلاف ٹیکنالوجی جنگ کی شروعات میں چپس کے ذریعے چین کی ہائی ٹیکنالوجی کی ترقی کو روکنے کی کوشش کی۔ نتیجہ کیا نکلا؟ ہواوے کمپنی نےفائیو جی کے میدان میں پیش رفت کرتے ہوئے اگست 2023 میں اُس وقت کی امریکی وزیر تجارت کے دورہ چین کے پہلے ہی دن فائیو جی موبائل فون متعارف کرا دیا۔ 2025 میں چین کے اے آئی لارج ماڈل اور ہائی اینڈ چپس کی تحقیق و ترقی میں مسلسل کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ ہواوےکے چپس شنگ ٹنگ910B جدید عالمی معیار کے حامل ہو چکے ہیں جبکہ سال کے آخر تک بڑے پیمانے پر سامنے آنے والے زیادہ طاقتور شنگ ٹنگ 920B ممکنہ طور پر NVIDIA H100 کے قریب پہنچ جائیں گے۔ چینی کمپنی اے ایم ای سی کی 5نینو میٹر کی ایچنگ مشین کی بڑے پیمانے پر تیاری ہو چکی ہے۔ چینی کمپنی وائی ایم ٹی سی نے دنیا کا پہلا 232-لیئر تھری ڈی این این ڈی چپ پیمانے پر تیار کر لیا ہے، جس کی پیداواری شرح 70 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ، چین نے ڈیزائن،مینوفیکچرنگ اور پیکجنگ کی پوری صنعتی چین میں خود انحصاری کی صلاحیت حاصل کر لی ہے۔
امریکہ کو دیکھتے ہوئے یہ پتہ چلتا ہے کہ ٹیکنالوجی کی ڈکپلنگ کے منفی اثرات مرتب ہو رہےہیں۔ برآمدی کنٹرول کے باعث 2024 میں امریکی ہائی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی چین میں آمدنی میں نمایاں کمی واقع ہوئی ۔چینی سیمی کنڈکٹر کی خود انحصاری نمایاں حد تک بڑھ گئی ہے۔ عالمی اے آئی چپس کی مارکیٹ ہوا وے، کمبری کون ٹیکنالوجیز سمیت دیگر چینی کمپنیوں کے ابھرنے کی وجہ سے ازسرنو ترتیب پا رہی ہے۔ چین نے ٹیکنالوجی اختراعات کے ذریعے دنیا بھر میں متبادل ٹیکنالوجی کے معیار ات متعارف کرائے ہیں ۔ امریکہ کی خود کھڑی کردہ ” اونچی دیوار” عالمی صنعتی چین میں ”امریکہ سے دوری ” کے رجحان کو تیز کر رہی ہے.
بے بنیاد دباؤ کے سامنے چین اب غیر فعال نہیں رہا بلکہ اس کے پاس سازگار میدانوں میں جوابی اقدامات کی صلاحیت موجود ہے۔ چین کی ریفائنڈ ریئر ارتھ کی پیداوار دنیا کی 90 فیصد سے زیادہ ہے۔ ملٹی کرسٹل سیلیکون، لیتھیئم بیٹری کے مواد، اور یہاں تک کہ امریکہ میں عام دواؤں کے خام مال کے شعبوں میں بھی چین کو اسی طرح کی برتری حاصل ہے۔ امریکہ کی 80فیصد اموکسیلن کا خام مال، 90فیصد سے زیادہ ہائیڈروکورٹیسون اور آئیبوپروفین چین سے آتا ہے۔ اگر چین کو جوابی اقدامات پر مجبور کیا گیا تو امریکہ کو “سپلائی کی کٹوتی سے سماجی بندش” کے مسئلے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہی صلاحیت ، چین کے اپنے ترقیاتی حقوق کا دفاع کرنے کی بنیاد ہے۔
ٹیکنالوجی کی ترقی ہر ملک کا جائز حق ہے، نہ کہ کسی کی مخصوص مراعت۔ چین کی ترقی کبھی بھی کسی کو “شکست” دینے کے لیے نہیں ہے، بلکہ دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ مل کر ” مشترکہ مفادات” کو بڑھانے کے لیے ہے۔ افریقہ میں برقی بسوں سے لے کر مشرق وسطیٰ کے شمسی بجلی گھر اور جنوب مشرقی ایشیا کے سیٹلائٹ مواصلات تک، چینی ٹیکنالوجی عالمی سطح پر ترقی کے لیے حمایت فراہم کر رہی ہے اور جیت جیت کے نظریے کو فروغ دے رہی ہے۔ اگر امریکہ ٹیکنالوجی کی بالادستی برقرار رکھنے پر بضد رہتا ہے، تو آخر کار تنہائی اس کا مقدر ہو گی اور اسےامریکی کمپنیوں سمیت پوری عالمی صنعت کی مشترکہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ امریکہ کی چپ انڈسٹری، ہالینڈ کی لِتھوگرافی مشین، جاپان کے سیمی کنڈکٹر مواد وغیرہ، سب دنیا کی دوسری بڑی مارکیٹ چین کے ساتھ گہرائی سے جڑے ہوئے ہیں۔
کثیرالجہتی اور اقتصادی عالمگیریت کے اس دور میں، “زیرو سم گیم” بہت پہلے ہی فرسودہ سوچ بن چکی ہے۔ امریکہ کو فوری طور پر اپنی غلط روش کو درست کرتے ہوئے دباؤ کے بجائے منصفانہ مسابقت اور کھلے تعاون کا انتخاب کرنا ہوگا۔ مذاکرات کی میز پر ہوا میں سودے بازی کا ہتھیار بنانے سے صرف اپنی کمزوریاں عیاں ہوتی ہیں جبکہ ہاتھ ملانے اور جیت جیت کی جستجو ہی صحیح راستہ ہے۔ چین کی ٹیکنالوجی کی ترقی کا رجحان نہیں رک سکتا۔ اگر امریکہ بضد رہتا ہے تو اسے اپنے بوئے ہوئے بیج کا کڑوا پھل کھانا ہو گا۔

DATE . Sep/16/2025

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top