
مودی کے بھارت میں مسلمانوں کا معاشی قتل جاری ہے،بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہندوتوا سوچ پورے معاشرے میں زہر اگل رہی ہے، بھارت میں مسلمانوں کو دبانے کی ہر کوشش ناکام ہونے کے بعد اب انتہاپسند ہندوؤں کی جانب سے معاشی بائیکاٹ کا نیا حربہ سامنے آیا ہے۔
عالمی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ کچھ عرصے سے انتہاپسند ہندوؤں کی جانب سے مسلمانوں کے اقتصادی اور سماجی بائیکاٹ کا عمل جاری ہے،سوشل میڈیا پر مسلمان دکانداروں اور ہوٹل مالکان کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے، ہندوؤں کے ذہن میں یہ شک پیدا کیا جا رہا ہے کہ مسلمان دکاندار کھانوں میں گائے کے گوشت، تھوک اور علاظت کی ملاوٹ کرتے ہیں۔
عالمی میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ اس منفی پروپیگنڈے کے بعد مقامی ہندو تنظیموں اور سیاست دانوں کی جانب سے مسلمانوں کو دکانیں کرائے پر نہ دینے کا مطالبہ بھی سامنے آیا، اس گھٹیا پروپیگنڈے کے ذریعے مسلمانوں سے ان کا ذریعہ معاش چھین کر انہیں دربدر کیا جا رہا ہے۔
اس حوالے سے ایک ہوٹل مالک وسیم احمد کا کہنا ہے کہ اس پروپیگنڈے نے میرے ہوٹل کو ویران کردیا جو پہلے گاہکوں سے بھرا ہوتا تھا،گاہکوں کی کمی اور کاروبار میں نقصان کے باعث مجھے اپنا ہوٹل بند کرنا پڑ۔
اترپردیش میں ایک منظم سازش کے تحت حکم جاری کیا گیا کہ دکانیں باقاعدہ نام کے ساتھ کھولی جائیں، اس مہم کا مقصد ہندؤوں کو مسلمانوں کی دکانوں سے کچھ نہ خریدنے پر قائل کرنا تھا۔
مسلمانوں کیخلاف اس معاشی بائیکاٹ مہم میں ہندو مذہبی رہنماء بھی ملوث ہیں،ہندو مذہبی رہنماء سوامی یشویت مہاراج نے اس مہم کی پر زور حمایت کی، یہ سلسلہ بھارت کی اترا کھنڈ، مدھیہ پردیش، راجھستان اور اتر پردیش جیسی ریاستوں تک پھیلا ہوا ہے،ان ریاستوں میں چھوٹے دکانداروں اور سبزی فروشوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے، اتر پردیش میں بے شمار ذبح خانے غیر قانونی قرار دے کر بند کر دیے گئے ہیں۔
مودی حکومت کے اقتدار میں آتے ہی مسلمانوں کے زریعہ معاش پر حملہ کیا گیا، دنیا بھر میں انسانی حقوق پر واویلا کرنے والی تنظیموں کو بھارت میں مسلمانوں کیخلاف اس معاشی بائیکاٹ پر آواز اٹھانا چاہئے۔
DATE . Mar/19/2025


