اقوام متحدہ ()جب اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اسیویں اجلاس سے خطاب کر رہے تھے تو انہیں بین الاقوامی نمائندوں کے ہجوم کے بجائے ان نمائندوں کے یکے بعد دیگرے اپنی نشستوں کو چھوڑ کر چلے جانے کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ۔تقریباً تمام عرب اور مسلم ممالک کے ساتھ ساتھ کچھ افریقی اور یورپی ممالک کے نمائندوں نے بھی اجتماعی طور پر نیتن یاہو کا خطاب سننے سے انکار کیا اور یو این جنرل اسمبلی ہال تقریباً خالی کر دیا ۔اس موقع پر ایرانی نشستوں پر ایران پر اسرائیلی حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تصاویر رکھی گئی تھیں۔
خالی نشستیں حادثاتی نہیں تھیں۔ حال ہی میں فرانس، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور بیلجیئم سمیت متعدد مغربی ممالک نے “ریاست فلسطین کو تسلیم کرنے” کی سفارتی مہم شروع کی ہے۔ اسی روز یونانی وزیر اعظم میتسوتاکس نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر میں دو ٹوک انتباہ جاری کیا کہ اگر اسرائیل نے غزہ میں اپنی فوجی کارروائیوں کو جاری رکھا تو اسے اپنے چند باقی اتحادیوں کو کھونے کا خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ یہ منظر الگ تھلگ سفارتی بیانات کا اظہار نہیں ہے، بلکہ عالمی برادری کی جانب سے اسرائیل کے ان فوجی اقدامات پر ایک اجتماعی ردعمل ہے جو دفاع کی ریڈ لائن کو عبورکرکے ایک سنگین انسانی تباہی کا باعث بنے ۔
اقوام متحدہ کے آزاد بین الاقوامی انکوائری کمیشن نے 16 ستمبر کو ایک رپورٹ جاری کی، جس میں کہا گیا کہ اسرائیل نے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کی ہے۔ 7 اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والے تنازعے کے اس حالیہ دور میں 27 ستمبر 2025 تک غزہ میں 65,000 سے زیادہ افراد ہلاک اور تقریباً 170,000 افراد زخمی ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے ۔ جب غزہ اسرائیلی بمباری کے باعث کھنڈرات میں تبدیل ہوا اور لاکھوں شہری بے دریغ قتل عام کا نشانہ بنے تو دنیا خاموش نہیں بیٹھی۔ چاہے متعدد ممالک کی طرف سے فلسطینی ریاست کو بیک وقت تسلیم کرنا ہو یا یواین جنرل اسمبلی کی اپنی نشستوں سے اجتماعی دستبرداری ہو، یہ موجودہ صورتحال کے حوالے سے بین الاقوامی برادری کی گہری تشویش اور بنیادی انسانی اصولوں کی پاسداری کی عکاسی ہے۔ یہ “اسرائیل مخالف” جذبات کو بھڑکانا نہیں ، بلکہ بین الاقوامی قوانین اور اخلاق کی نچلی ترین سطح کو بار بار پامال کیے جانے پر بنیادی انصاف کے دفاع کے لیے بین الاقوامی برادری کا فطری ردعمل ہے۔
ایک خالی آڈیٹوریم سے خطاب کرتے ہوئے نیتن یاہو نے اصرار کیا کہ اسرائیل حماس کا خاتمہ کر دے گا ۔نیتن یاہو نے مغربی ممالک کے رہنماؤں کو “یہود دشمنی” پر اکسانے کی مذمت کی۔ ایسا بیان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اسرائِیل اپنی سمت کھو چکا ہے۔ بین الاقوامی نظم و نسق کبھی بھی یک قطبی سے نہیں بلکہ کثیر الجہت ہم آہنگی سے حاصل ہوا ہے ۔ اگر کوئی ملک صرف فوجی طاقت پر انحصار کرتا ہے اور انسانی ضمیر کی آواز کو نظر انداز کرتا ہے، توچاہے وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، لامحالہ تنہائی سے دو چار ہو جائے گا۔ اسرائیل کو اس وقت جس صورتحال کا سامنا ہے اس کی وجہ صرف مسئلہ فلسطین ہی نہیں ہے بلکہ یہ سوال بھی ہے کہ کیا وہ بین الاقوامی اتفاق رائے اور انسانی حقوق کی بنیادوں پر واپس آنے کے لیے تیار ہے یا نہیں؟
جنرل اسمبلی کے ہال میں خالی کرسیوں نے عالمی برادری کے اجتماعی پیغام کو اسرائیل اور پوری دنیا تک پہنچایا ہے ۔ جیسا کہ چینی رہنما نے اسی آڈیٹوریم میں اپنی تقریر میں پوچھا تھا کہ : “مشکلات سے گزرنے کے بعد، کیا بنی نوع انسان کو پرامن بقائے باہمی میں زیادہ باضمیر اور عقلمند نہیں ہونا چاہیے؟ ایسی خوفناک انسانی آفات کے پیش نظر کیا ہم عدل و انصاف کو پامال کرنے والے مظالم کو دیکھتے ہوئے آرام سے بیٹھ کر سکتے ہیں ؟ کیا ہمیں طاقتوں کے خوف میں مبتلا ہو کر ان کے غیر اخلاقی اور غنڈہ گردی کے رویے کے سامنے خاموش رہنا چاہیے ؟ اور کیا ہم اقوام متحدہ کے قیام کی ابتدا میں اپنے آباؤ اجداد کے جذبہ اور استقامت کو تاریخ کی آندھیوں سے اڑا دینے والے ہیں ؟
یہ چار سوالات کسی خاص ملک کے خلاف تو نہیں ہیں، لیکن یہ سوالات ایک گھنٹی کی آواز کی مانند کچھ ممالک کے ضمیر اور ذمہ داری پر سوالیہ نشان ضرور ہیں۔
تاریخ کے اس دوراہے پر، ہر ملک کا انتخاب اس کے مستقبل کا تعین کرے گا ۔ اگرمسٹر نیتن یاہو یواین جنرل اسمبلی کے خالی ہال سے کچھ سیکھ سکیں تو انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ مذاکرات کی جگہ محاذ آرائی اسرائیل کے لئے نا صرف اپنے اتحادیوں بلکہ اس متنوع بین الاقوامی برادری میں بھی اپنے مقام سے تیزی سے محرومی کا سبب ہو گی ۔ آج دنیا کو جس چیز کی ضرورت ہے ، وہ طاقت اور زبردستی نہیں بلکہ اخلاقیات پر مبنی تعمیری مکالمہ ہے۔ صرف ضمیر کی آواز کی طرف لوٹنے، زندگی کا احترام کرنے اور عدل و انصاف کا سامنا کرنے سے ہی اسرائیل اپنی تنہائی سے نکل سکتا ہے اور عالمی برادری کا اعتماد دوبارہ جیت سکتا ہے۔ یہ نہ صرف اسرائیل کی اپنی ترقی کے لئے ضروری ہے بلکہ علاقائی حتیٰ کہ عالمی امن و امان کے لئے بھی ایک اہم ضمانت ہے۔
DATE . Sep/28/2025