پاکستان کا مالی بحران کے دوران اقوامِ متحدہ کی امن مشنوں کے لیے عالمی حمایت میں اضافے کا مطالبہ

News Image

اقوامِ متحدہ:پاکستان نے اقوامِ متحدہ کے امن مشنوں کے مالی بحران پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ادارہ، جو عالمی امن و سلامتی کے قیام میں اقوامِ متحدہ کی ساکھ کی بنیاد ہے، شدید سیاسی، مالی اور عملی مشکلات سے دوچار ہے۔

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی چوتھی کمیٹی جو خصوصی سیاسی و نوآبادیاتی امور سے متعلق ہے میں خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے مستقل مندوب سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا کہ آج اقوامِ متحدہ کی امن فوج ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے۔انہوں نے کہا کہ اقوامِ متحدہ کا یہ کلیدی آلہ، جس نے عالمی امن و سلامتی کو برقرار رکھنے میں اس ادارے کی ساکھ قائم کی، اب بے مثال سیاسی، مالی اور عملی چیلنجز سے نبرد آزما ہے۔

پاکستانی مندوب نے کہا کہ جاری مالی بحران دراصل ایک گہری اور بنیادی مسئلے کی علامت ہے یعنی بعض اہم رکن ممالک کی سیاسی عزم میں کمی، جو اس امن کے لازمی آلے کے لیے خطرناک ہے۔انہوں نے خبردار کیا کہ اگر اس بحران کا فوری تدارک نہ کیا گیا تو یہ اقوامِ متحدہ کے اس نمایاں کثیرالجہتی تعاون پر اعتماد کو مجروح کر سکتا ہے۔

اس وقت اقوامِ متحدہ کے 11 فعال امن مشن مختلف خطوں میں کام کر رہے ہیں جن میں 120 سے زائد ممالک کے تقریباً 60,000 فوجی شامل ہیں، جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ ان مشنوں کا مقصد تنازعات سے متاثرہ ممالک کو امن کی جانب گامزن کرنا، سلامتی فراہم کرنا، سیاسی عمل کی معاونت کرنا، اور ادارہ جاتی استحکام کو فروغ دینا ہے۔

پاکستان، اقوامِ متحدہ کے سب سے پرانے امن مشنوں میں سے ایک اقوامِ متحدہ کے فوجی مبصر گروپ برائے بھارت و پاکستان (UNMOGIP) کا میزبان ہے، جو جموں و کشمیر میں تعینات ہے۔ پاکستان طویل عرصے سے سب سے بڑے اور فعال امن مشن فراہم کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔

گزشتہ سات دہائیوں میں، پاکستانی بلیو ہیلمٹس نے چار براعظموں کے 48 مشنوں میں پیشہ ورانہ مہارت، جرات اور ایثار کے ساتھ خدمات انجام دی ہیں۔ اب تک 2,50,000 سے زائد پاکستانی امن اہلکار اقوامِ متحدہ کے پرچم تلے خدمات سرانجام دے چکے ہیں، جبکہ 182 شہداء نے عالمی امن کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔

سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا کہ تمام مشکلات کے باوجود اقوامِ متحدہ کے امن مشن اب بھی بین الاقوامی برادری کے لیے سب سے مؤثر، بااعتبار اور کم خرچ ذریعہ ہیں۔ آزاد تجزیوں سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ یکطرفہ مداخلتوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ موثر، قانونی اور کم لاگت ہیں، کیونکہ ان کا سالانہ کل بجٹ صرف 5.5 ارب ڈالر ہے، جو عالمی فوجی اخراجات کا 0.3 فیصد سے بھی کم بنتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ من مشن آج بھی زندگیاں بچا رہے ہیں، جنگ بندیوں کی نگرانی کر رہے ہیں، شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنا رہے ہیں اور نازک خطوں میں استحکام لا رہے ہیں۔انہوں نے زور دیا کہ تنازعات سے بھرے اس دور میں دنیا کو کمزور نہیں بلکہ زیادہ مضبوط امن مشنوں کی ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ امن مشن کوئی جادوئی حل نہیں، لیکن یہ غیر ضروری بھی نہیں۔ یہ کثیرالجہتی نظام کے عملی مظہر اور اجتماعی عزم کی علامت ہیں، جو دنیا کو تنازعات کے مقابلے کے لیے بین الاقوامی تعاون کی راہ دکھاتے ہیں۔

DATE . Nov/13/2025

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top