انڈیا میں عشروں سے سبزی خوری کو ایک مذہبی، روحانی اور پاکیزہ رحجان سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے اور اس تصور کو بہت سی دائیں بازوو کی ہندو تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں ایک مذہبی پہلو کے طور پر فرورغ دیتی رہی ہیں۔
بی جے پی کے اقتدار والی کئی ریاستوں میں ماحولیات، صحت و صفائی اور ’گاؤ کشی‘ کی روک تھام کے نام پر مختلف طریقوں سے گوشت خوری کے رحجان کو روکنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے اور بہت سے شہروں، خاص طور سے ہندو مذہبی مقامات کے شہروں اور قصبوں میں گوشت کی فروخت اور کھانے پر پابندی ہے۔
اس کے باوجود گذشتہ پانچ برس میں انڈیا میں گوشت کھانے والوں کی تعداد میں پانچ فیصد کا اضافہ ان تنظیموں اور جماعتوں کے لیےحیرت کا باعث ہو گا۔

ماضی قریب میں گوشت کی فروخت یا اسے کھانے جیسے واقعات کے نام پر مشتعل ہندو گروہوں کے ہاتھوں ہونے والے تشدد، گوشت کی دوکانیں بند کروانے اور موشیوں کے لانے، لے جانے میں قدغنوں جیسے واقعات کے باوجود انڈیا میں گوشت خوروں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
نیشنل فیملی ہیلتھ کے 2019 -21 کے سروے کے مطابق انڈیا میں پندرہ سے 49 برس کے مرد اور عورتوں میں صرف 16.5 فیصد ایسے لوگ ہیں جوگوشت نہیں کھاتے۔ سروے کے مطابق انڈیا کی آبادی بنیادی طور پر گوشت خور ہے۔
فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق انڈیا میں 83.4 فیصد مرد گوشت خور ہیں جبکہ 70.6 فیصد خواتین گوشت خور ہیں۔ اہم پہلو یہ ہے کہ 2015 -16 میں جو سروے ہوا تھا اس میں گوشت کھانے والے مردوں کا تناسب 78.4 تھا یعنی پانچ سال میں گوشت خور مردوں کی تعداد میں پانچ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
دوسری جانب خواتین کی تعداد میں محض 0.6 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

سماجی عمرانیات کے پروفیسر ایم اے کلام نے روزنامہ ’انڈین ایکسپریس‘ میں ایک مضمون میں لکھا ہے کہ مردوں میں گوشت خوری کا رحجان بڑھنے کی وجہ کا تعین کرنا آسان نہیں ہے۔
’لیکن اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ مردوں کو گھر سے باہر ریسٹورنٹ وغیرہ میں کھانے کے مواقع زیادہ میسر ہوتے ہیں۔ بہت سے گھروں میں گوشت کھانے کی پابندیاں ہوتی ہیں مگر گھر سے باہر کھانے میں مردوں کو آزادی مل جاتی ہے اور کسی کے علم میں آئے بغیر وہ ’نان ویج فوڈ‘ کھا سکتے ہیں جبکہ عورتوں کو گھر کے اندر عموماً کھانے کے ضابطے کا پابند رہنا پڑتا ہے۔‘
سروے میں ان افراد کو گوشت خور یا نان ویجیٹیرین مانا گیا ہے جو مچھلی، مرغی، بکری یا کسی اور جانور کا گوشت کھاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق مسلمانوں، مسیحیوں اور بودھ مذہب کے مرد پیروکاروں میں گوشت خوری تقر یباً 98 فیصد ہے۔ بودھ مذہب کے ماننے والوں میں گوشت خوری میں گذشتہ پانچ برس میں پانچ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ ہندوؤں میں تقر یبآ 78 فیصد افراد گوشت خور ہیں اور گوشت خوری کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
سروے کے مطابق سکھوں میں صرف 57 فیصد لوگ گوشت کھاتے ہیں اور اس کمیونٹی میں بھی گوشت خوری کا رحجان رفتہ رفتہ بڑھ رہا ہے۔

اس سروے میں سب سے حیرت انگیز اعداد شمار جین مذہبی برادری کے رحجان کے بارے میں آئے ہیں۔ جین مذہب میں گوشت کھانا مکمل طور پر ممنوع ہے۔ جین مذہب میں گوشت کھانا ایک بڑا گناہ شمار ہوتا ہے۔ پانچ سال پہلے جو سروے ہوا تھا اس میں پتہ چلا تھا کہ جین مذہب میں تقریباً سات قیصد لوگ گوشت کھاتے تھے لیکن حالیہ سروے سے معلوم ہوا ہے کہ جین مذہب میں گوشت خوروں کی تعداد بڑھ کر تقریباً 27 فیصد ہو گئی ہے، یعنی پانچ برس میں گوشت خوروں کی تعداد میں 20 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
سروے میں بتایا گیا ہے کہ بیشتر مذہبی گروپوں میں خواتین میں گوشت خوری کی اوسط مردوں سے کم ہے۔ اس سروے سے یہ بھی معلوم ہے کہ ملک کی بیشتر آبادی روزمرہ کی جو خوراک لیتی ہے اس میں مطلوبہ صحت مند اجزا کی کمی ہوتی ہے۔