چین کی آبادی 1.4 ارب ہے، جو دنیا کی کل آبادی کا تقریباً 18 فیصد ہے۔ اتنے بڑے ملک کی طویل اور مستحکم ترقی کے لیے ایک ایسا نظام ناگزیر ہے جو اتفاقِ رائے پیدا کرے اور وسائل کو مربوط کرے۔ پانچ سالہ منصوبہ یہی ایک آلہ ہے: یہ کروڑوں افراد کی کوششوں کو ایک ہی سمت پر مرکوز کرتا ہے، بڑے کاموں کو انجام دینے کے لیے طاقت مرکوز کرتا ہے ، خواہ وہ ہائی سپیڈ ریل نیٹ ورک کی تعمیر ہو، قابل تجدید توانائی کو فروغ دینا ہو، یا عوامی صحت کے بحران سے نمٹنا ہو۔ بلاشبہ یہ ماڈل بے عیب نہیں ہے، لیکن یہ مغربی قلیل مدتی انتخابی نظام کے مقابلے میں حکمرانی کی ایک مختلف سوچ پیش کرتا ہے۔ آج کے غیر یقینی عالمی ماحول میں یہ طویل المدتی نقطۂ نظر شاید مزید ممالک کی توجہ کا مستحق ہے۔
سال 2025 چین کے”چودہویں پانچ سالہ منصوبے” کے اختتام کا سال ہے۔ حال ہی میں، چینی صدر شی جن پھنگ نے “پندرہویں پانچ سالہ منصوبے”یعنی 2026 تا 2030 کی تشکیل کے کام کے حوالے سے اہم ہدایات جاری کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ” سائنسی فیصلہ سازی، جمہوری فیصلہ سازی، قانونی فیصلہ سازی پر کاربند رہا جائے، بالائی سطح کی منصوبہ بندی اور عوام سے رائے لینے کو یکجا کیا جائے، اور مختلف طریقوں سے عوام اور معاشرے کے مختلف طبقات کی آراء اور تجاویز کو سنایا جائے۔” یہاں چینی رہنما نے جس “بالائی سطح کی منصوبہ بندی” اور “عوام سے مشورہ لینے” کے امتزاج پر زور دیا، وہ چین کے ترقیاتی منصوبہ بندی نظام کی نمایاں خصوصیت اور چینی خصوصیات کے حامل سوشلسٹ نظام کی خوبیوں کی اہم عکاسی بھی ہے ۔
چین کا پانچ سالہ منصوبہ محض ایک سرکاری دستاویز نہیں بلکہ ایک ترقیاتی فلسفہ ہے ،جو استحکام، تسلسل اور تعاون کو نمایاں کرتا ہے۔ جیسا کہ چینی کہاوت ہے:”قطرہ قطرہ پانی پتھر کو چھید دیتا ہے، مگر یہ ایک دن میں نہیں ہوتا۔” حقیقی کامیابیاں ہمیشہ طویل المدتی استقامت اور اجتماعی حکمت سے جنم لیتی ہیں۔ اگر آپ اس”چینی طرز کے طویل المدتی نقطۂ نظر” کو سمجھ لیں، تو آپ نہ صرف چین کی ترقیاتی کہانی کو گہرائی سے سمجھ سکیں گے بلکہ اس میں پوری انسانیت کی مشترکہ ترقی اور پیش رفت کے لیے بھی ایک سبق تلاش کر سکتے ہیں۔
DATE . Sep/18/2025