اگست میں چین کے صدر شی جن پنگ نے سنہ 2013 میں شروع کی گئی مہم ‘اپنی پلیٹ صاف کریں’ کو ایک نئے انداز میں دوبارہ شروع کیا ہے۔ انھوں نے ملک میں خوراک کے ضیاع کو ختم کرنے اور پیسے کی بچت پر زور دیا ہے۔
چینی صدر نے خوراک کی کمی کو ‘پریشان کُن اور تکلیف دہ’ قرار دیا اور عوامی سطح پر اس مسئلے کے بارے میں آگہی بڑھانے پر زور دیا۔
چینی اخبار گلوبل ٹائمز کے مطابق انھوں نے ایک ایسا سماجی ماحول پیدا کرنے کی بات کی جہاں خوراک کو ضائع کرنا شرمناک سمجھا جائے۔
چینی ٹی وی چینل سی جی ٹی این کے مطابق صدر شی جن پنگ نے کہا ‘حالانکہ چین میں کئی برسوں سے بہترین فصلیں پیدا ہو رہی ہیں لیکن خوراک کی سکیورٹی کے بارے میں باخبر رہنا ضروری ہے۔ اس سال کووڈ 19 کی وبا کے اثرات نے ہمیں اس بارے میں خبردار کر دیا ہے۔’
یہ بھی پڑھیے
چین کے سرکاری میڈیا نے صدر کے اس بیان کے بعد اس معاملے پر کافی بات کی اور سرکاری اعداد و شمار پیش کیے جن کے مطابق سنہ 2015 میں بڑے شہروں میں چینی شہریوں نے 17 سے 18 ملین ٹن کھانا ضائع کیا تھا۔
سرکاری ٹی وی چینل سی سی ٹی وی کے براہ راست پروگراموں میں بھی کھانے کے ضیاع پر تنقید کی گئی۔ ان پروگراموں میں مہمانوں کو بہت زیادہ کھاتے اور پھر الٹیاں کرتے دکھایا گیا ہے۔
لیکن اس مہم کے بارے میں کئی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ملک میں خوراک کے ابھرتے ہوئے بحران سے توجہ ہٹانے کے لیے شروع کی گئی ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ اس بحران کا ذمہ دار صارفین کے غیر ذمہ دارانہ رویے کو قرار دیا جائے۔

کیا سب کنٹرول میں ہے؟
سرکاری میڈیا ملک میں خوراک کے بحران سے متعلق خدشات کو کم کر کے پیش کر رہا ہے۔ خدشات یہ ہیں کہ اس بحران کی وجہ کووڈ 19 کی وباء اور کئی جنوبی ریاستوں میں تباہ کن سیلاب جیسی قدرتی آفات ہو سکتی ہے۔
سرکاری میڈیا اس بات پر بھی زور دے رہا ہے کہ خوراک کی پیداوار پر سیلاب، ٹڈی دل اور وباء کے اثرات سے بھرپور طریقے سے نمٹا جا رہا ہے۔
سرکاری نیوز ایجنسی شنوا کے مطابق چین موسمِ خزاں میں ایک اور بمپر فصل کو یقینی بنانے کے لیے بالکل تیار ہے۔
سرکاری میڈیا کے مطابق ملک چاول، گندم اور دوسرے اناج کے لحاظ سے خود کفیل ہے۔
سرکاری خبر رساں اداروں کی رپورٹوں کے مطابق جہاں ایک طرف دنیا کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے لیکن چین میں وباء اور سیلاب نہیں بلکہ خوراک کے ضیاع کی وجہ سے خوراک کی قلت کا خطرہ ہو سکتا ہے۔

مغربی میڈیا کو غلط فہمی؟
چین کے سرکاری میڈیا اور حکومت کے مکمل کنٹرول میں کام کرنے والے ٹوئٹر کی طرح کے پلیٹ فارم ویبو پر عوام سے مسلسل کہا جا رہا ہے کہ وہ کھانے پینے کی اشیاء کی ذخیرہ اندوزی نہ کریں اور خوراک کی کمی کے بارے میں ’جعلی خبروں‘ پر کان نہ دھریں۔
سرکاری میڈیا پر ایڈیٹوریل، رپورٹیں اور تبصرے بھی چھاپے گئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ عوام اور مغربی میڈیا نے ملک میں فوڈ سکیورٹی اور خوراک کے ضیاع کے بارے میں مہم کو غلط سمجھا ہے۔
اس سال کے شروع میں جب کورونا وائرس کی وباء ملک میں اپنے عروج پر تھی تو اس وقت بھی اسی طرح کی رپورٹیں اور پیغامات شائع کیے گئے تھے۔
چینی میڈیا ایک حکومتی تھنک ٹینک کی رپورٹ میں دی جانے والی وارننگ کی اہمیت کو بھی کم کر کے پیش کر رہا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ چین کو سنہ 2025 تک خوراک کی ترسیل میں 130 ملین ٹن کی کمی ہو سکتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس کی وجوہات میں دیہات کا تیزی سے شہروں میں تبدیل ہونا، دیہی علاقوں کی تیزی سے بوڑھی ہوتی ہوئی آبادی اور خوراک کے فی کس استعمال میں اضافہ شامل ہیں۔

رورل ڈولیپمنٹ رپورٹ 2020 چین کے رورل ڈولپمنٹ انسٹیٹیوٹ آف دا چائنیز اکیڈمی آف سوشل سائنسز اور چائنا سوشل سائنسز پریس کی مشترکہ پیشکش ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سنہ 2025 کے اختتام تک چین میں تین اہم اناج یعنی گندم، چاول اور مکئی کی مانگ کے مقابلے میں 25 ملین ٹن کی کمی کا خدشہ ہے۔
لیکن 19 اگست کو چین کے رورل ڈولپمنٹ انسٹیٹیوٹ کے ایک تحقیق کار نے کہا کہ اکثر میڈیا اداروں نے اس رپورٹ کو غلط سمجھا ہے۔
‘حقیقت یہ ہے کہ سپلائی میں کمی کو برآمدات کے ذریعے پورا کیا جا سکتا ہے اس لیے فوڈ سکیورٹی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ چین کو فوڈ کی سکیورٹی کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے۔’
شنگھائی میں بزنس کی ایک نجی ویب سائٹ ایکائی کے دو رپورٹروں نے لکھا کہ رورل ڈولپمنٹ انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ میں جس کمی کا ذکر کیا گیا ہے وہ چین میں اناج کی پیداواری صلاحیت کے لحاظ سے کوئی بڑا فرق نہیں ہے۔
لیکن انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ برآمدات پر انحصار چین کے لیے قومی سلامتی کا مسئلہ ہے۔ ‘ایک عشاریہ چار ارب لوگوں کے پیٹ بھرنے کے لیے برآمدات پر انحصار کرنا غیرحقیقی ہے۔’

مغربی میڈیا پر الزام
چین میں انگریزی زبان کے سرکاری خبر رساں ادارے خاص طور پر گلوبل ٹائمز نے فوڈ سکیورٹی کے معاملے پر مغربی میڈیا کے مقابلے کی کوشش کی ہے۔
گلوبل ٹائمز نے 17 اگست کو لکھا ‘کچھ مغربی میڈیا نے غلط رپورٹ کیا ہے کہ جنوبی چین میں شدید سیلاب اور امریکہ کے ساتھ کشیدگی کی وجہ سے ملک بھر میں خوراک کا بحران سر اٹھا رہا ہے۔’
لیکن چینی زبان کے مقامی میڈیا نے مغربی میڈیا کے بجائے خوراک کی سکیورٹی سے متعلق بحران کے بارے میں سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی خبروں اور افواہوں پر زیادہ توجہ دی۔
مقامی سرکاری میڈیا نے عالمی سطح پر تبدیل اور کشیدہ ہوتے ہوئے ماحول کے پس منظر میں خوراک کی سکیورٹی کے بارے میں حکومت کے ردعمل کو بھی اجاگر کیا ہے جس کا بظاہر تعلق چین کی امریکہ کے ساتھ جاری کشیدگی سے ہے۔

سوشل میڈیا پر حمایت
چین کے سوشل میڈیا صارفین عموماً حکومت کی خوراک کے ضیاع کے خلاف مہم کی حمایت کرتے ہیں، جیسے ریستورانوں میں کھانا منگوانے کی مقدار محدود کرنا اور صارفین کی اس بات پر حوصلہ افزائی کرنا کہ وہ بچا ہوا کھانا ساتھ لے جائیں۔
کچھ سوشل میڈیا صارفین تو اور زیادہ سخت اقدامات کی بات کر رہے ہیں جیسے اناج سے بننے والی کئی شرابوں پر پابندی کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔
17 اگست کو ایک صارف نے لکھا ‘سب کو شراب نوشی چھوڑ دینی چاہیے اور الکوحل کو کشید کرنا بند کر دینا چاہیے۔ اس طرح بڑی تعداد میں اناج کو بچایا جا سکتا ہے۔’
سوشل میڈیا پر خاص طور پر ویبو پر ایسے ویڈیو لگائے جا رہے ہیں جن میں لوگوں کو بے تحاشا کھاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایسے ویڈیو نوجوانوں میں بہت مقبول ہوئے ہیں جو انھیں ’غلیظ اور بیکار‘ قرار دیتے ہیں۔
لیکن کچھ لوگ زیادہ کھانے پر مکمل پابندی کی مخالفت بھی کرتے ہیں۔
ایک ویبو صارف نے لکھا ‘لوگوں کے پاس کھانے کی آزادی ہے اور دوسروں کے پاس انھیں دیکھنے کی آزادی ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں ہر چیز پر پابندی ہو بہت خوفناک ہوتا ہے۔’