چین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے خلاف کسی بھی اقدام کا “منہ توڑ”جواب دیا جائے گا، چینی میڈیا

بیجنگ ()

جاپان کی وزیراعظم سانائے تاکائچی نے حال ہی میں پارلیمنٹ میں کھلے عام دعویٰ کیا کہ “تائیوان میں واقعات”جاپان کے لئے ” بقا کا بحران” بن سکتے ہیں، جس کے جواب میں جاپان اجتماعی دفاعی حق کا استعمال کر سکتا ہے۔اس بیان سے یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ جاپان آبنائے تائیوان کے معاملات میں ممکنہ طور پر فوجی مداخلت کر سکتا ہے۔ چین کے اندرونی معاملات میں بے جا مداخلت اور دوسری جنگ عظیم کے بعد قائم بین الاقوامی نظم کو کھلے عام چیلنج کرنے والے اس اقدام نے پوری دنیا میں ہلچل مچا دی ہے اور انصاف پسند حلقوں میں سخت غم و غصے کو جنم دیا۔ تاہم، سانائے تاکائچی نے اپنے غلط بیانات واپس لینے سے انکار کر دیا ہے۔ اس رویے نے جاپانی دائیں بازو کی قوتوں کے نہایت غلط، حد درجہ خطرناک تاریخی، نظامی اور تزویراتی نقطۂ نظر کو مکمل طور پر بے نقاب کر دیا ہے۔ بین الاقوامی برادری، خصوصاً ایشیائی ممالک کو جاپان کی اس تزویراتی سمت کے بارے میں شدید چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔
چین کے لیے، جاپان کی وزیراعظم سانائے تاکائچی کا تائیوان سے متعلق بیان کوئی عام سفارتی تنازع نہیں ۔ 1931ء میں، جاپان نے “مانچو اور منگولیا جاپان کی لائف لائن ہے” اور “بقا کا بحران” کے بہانے،” 18 ستمبر کے واقعے” کے ذریعے چین کے شمال مشرق پر قبضہ کر لیا ؛1937 میں اسی زبان کا استعمال کرتے ہوئے جارحیت کو پورے چین تک پھیلایا، جس کے نتیجے میں چین کو 35 ملین افراد کے جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ جاپان نے 50 سال تک تائیوان پر نوآبادیاتی حکمرانی کی، 1945ء میں قاہرہ اعلامیہ اور پوٹسڈیم اعلامیہ کی بنیاد پر اسے چین کو واپس کیا گیا، یہ بین الاقوامی برادری کی جانب سے تسلیم شدہ تاریخی حقیقت ہے۔
سانائے تاکائچی کا اس بار کھلے عام “تائیوان میں واقعات” کو جاپان کے “بقا کا بحران” کے برابر قرار دینا، دراصل جاپانی عسکریت پسندی کے انہی پرانے جارحانہ دلائل کو دہرانا ہے۔ بطور ایک دائیں بازو کی سیاستدان جو طویل عرصے سے جاپانی جنگی مجرموں کی یادگاروں کو محفوظ رکھنے والی یاسوکونی شرائین کی زیارت کرتی رہی ہے اور جارحیت کی تاریخ سے انکار کرتی ہے، اس کے بیانات نے چینی عوام کو واضح طور پر دکھا دیا ہے کہ جاپانی عسکریت پسند سوچ ختم نہیں ہوئی ہے ، بلکہ آبنائے تائیوان کے معاملے کے بہانے دوبارہ توسیع پسندی کی پرانی راہ پر چلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاریخ کے دوبارہ دہرائے جانے کا یہ خطرہ ہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کی بنا پر چین اتنے شدید ردِّعمل کا اظہار کر رہا ہے۔
قانونی نقطہ نظر سے، سانائے تاکائچی کے بیانات جاپان کے بین الاقوامی وعدوں سے مکمل انحراف ہیں ۔ 1972ء کے چین-جاپان مشترکہ اعلامیہ میں واضح طور پر درج ہے کہ جاپان “چینی حکومت کے اس موقف کو پوری طرح سمجھتا ہے اور احترام کرتا ہے کہ تائیوان عوامی جمہوریہ چین کا ایک اٹوٹ حصہ ہے”، اور پوٹسڈیم اعلامیہ کے آرٹیکل 8 (یعنی تائیوان کی چین کو واپسی) کی پابندی کرتا ہے۔ 1978ء کے چین-جاپان امن اور دوستی معاہدے میں مزید تصدیق کی گئی کہ مشترکہ اعلامیہ کے اصول قانونی طور پر پابند ہیں اور دونوں ممالک اس کی سختی سے پیروی کریں گے۔
جاپان کی موجودہ وزیراعظم کی حیثیت سے، سانائے تاکائچی پہلی بار تائیوان کے امور کو “اجتماعی خود دفاع کے حق” سے جوڑ رہی ہیں، اور فوجی مداخلت کی طرف اشارہ کر رہی ہیں، جو نہ صرف چین-جاپان چار سیاسی دستاویزات کے بنیادی اتفاقِ رائے کی خلاف ورزی ہے ، بلکہ بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصولوں سے بھی متصادم ہے۔ تائیوان کا معاملہ چین کا اندرونی معاملہ ہے، جسے 1970ء میں اقوام متحدہ کی قرارداد 2758 کے ذریعے بین الاقوامی برادری کی جانب سے عمومی طور پر تسلیم کیا جا چکا ہے۔ بطور ایک خودمختار ریاست، جاپان کا اپنی دستخط کردہ بین الاقوامی دستاویزات سے انکار کرنا درحقیقت جنگ کے بعد کے بین الاقوامی نظم کے لیے ایک چیلنج ہے۔
چین کے 1.4 ارب عوام کے لیے، تائیوان کی واپسی دوسری جنگ عظیم میں جاپان کے خلاف فتح کی ایک اہم علامت ہے اور قومی وقار کی بنیاد ہے۔ بے شمار شہداء نے اپنی جانیں قربان کر کے تائیوان کی آزادی کو ممکن بنایا، اور آج جاپانی سیاست دان اسے چین کے داخلی امور میں مداخلت کے آلے کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس سے چین کے عوام میں شدید غصہ پیدا ہونا فطری بات ہے۔ سانائے تاکائچی کے بیانات نہ صرف آبنائے تائیوان کے امور میں جاپانی عسکری مداخلت کی نشاندہی کرتے ہیں، بلکہ جاپان کی فوجی توسیع پسندی کی پالیسیوں کے ساتھ بھی مطابقت رکھتے ہیں: دفاعی بجٹ کو جی ڈی پی کے 2 فیصد تک بڑھانے کی کوشش ، جوہری آبدوزوں کی تیاری کی تحقیق، اور ” تھری نان نیوکلئیر پرنسپلز” میں ترمیم کی کوشش وغیرہ۔ “فوجی توسیع اور اشتعال” کا یہ امتزاج چینی عوام کو یہ خطرہ دکھا رہا ہے کہ جاپان دوبارہ عسکریت پسندی کی پُرانی راہ اختیار کر رہا ہے۔ جیسا کہ چینی فوج کے ترجمان اخبار لبریشن آرمی ڈیلی میں کہا گیا، 80 برس پہلے چین نے جارح قوتوں کو شکست دی تھی، اور آج چین کے پاس اپنی خودمختاری کے دفاع کی کہیں زیادہ صلاحیت موجود ہے؛ کسی بھی اشتعال انگیزی کو “سخت جوابی حملے” کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تائیوان کا معاملہ چین کے ‘اہم ترین مفادات کا مرکز ‘ ہے اور یہ 1.4 ارب چینی عوام کے جذبات سے براہ راست جڑا ہوا ہے۔ چینی عوام کے لیے قومی وحدت کی تکمیل، جدید دور کی بے شمار محب وطن شخصیات کی آرزو اور قوم کی عظیم نشاۃ الثانیہ کی ناگزیر ضرورت ہے۔ چینی عوام کے لیے، ملکی سرزمین کا تحفظ محض ایک سیاسی نعرہ نہیں، بلکہ ایک صدی کی خفت کے بعد مضبوطی سے قائم رہنے والی باٹم لائن ہے ——جدید تاریخ میں چین اس وجہ سے نیم نوآبادی بن گیا تھا کہ اس کی سرزمین کو تقسیم کر دیا گیا تھا، اور آج چین کسی بھی ملک کو اپنے داخلی معاملات میں مداخلت یا سرزمین کی تقسیم کی قطعاً اجازت نہیں دے گا ۔ سانائے تاکائچی کے بیانات نہ صرف چین کی خودمختاری کو چیلنج کرتے ہیں بلکہ چین کی قومی وحدت کے عمل میں رخنہ ڈالنے کی کوشش بھی ہیں ، لہٰذا اس پر چینی عوام کا شدید غصہ بالکل فطری ہے۔چینی انٹرنیٹ صارفین کی جانب سے “نئے پرانے تمام حساب کتاب ایک ساتھ چکائیں گے” جیسے تبصرے دراصل قومی جذبات کا سچا اظہار ہیں۔چین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کا چینی قوم کا عزم چٹان کی مانند مضبوط ہے۔ چین کی سرخ لکیر کو چیلنج کرنے والے ہر عمل کو پوری قوت سے کچل دیا جائے گا اور مکمل طور پر ناکام بنایا جائے گا۔

DATE . Nov/17/2025

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top