-
کراچی پولیس نے تھانہ سائٹ کے علاقے میں سکیورٹی گارڈ کی جانب سے کی گئی فائرنگ کے نتیجے میں دو چینی شہریوں کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔
ڈی آئی جی اسد رضا نے بی بی سی کو اس واقعے میں دو چینی شہریوں کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے تاہم انھوں نے مزید تفصیلات فراہم نہیں کی ہیں۔
وزیر داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار کے آفس سے جاری ہونے والی پریس ریلیز میں اسے ’سکیورٹی گارڈ اور غیرملکی مندوبین کے مابین جھگڑے کا واقعہ‘ قرار دیتے ہوئے کراچی پولیس کو اس واقعے میں ملوث سکیورٹی گارڈ کی گرفتاری کی ہدایات جاری کی ہیں۔
وزیر داخلہ سندھ نے چینی ماہرین اور چینی باشندوں سمیت غیرملکیوں کو سکیورٹی فراہم کرنے والی کمپنیوں کے آڈٹ کے احکامات جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ سکیورٹی جیسے اہم فرائض پر مامور گارڈز کے جسمانی و دماغی فٹنس ٹیسٹ کو یقینی بنایا جائے۔
پریس ریلیز میں مزید کہا گیا ہے کہ صرف تربیت یافتہ اور مکمل طور فٹ سکیورٹی گارڈ ہی کی خدمات حاصل کی جائیں جبکہ متعلقہ حکام سکیورٹی کمپنیوں کے آڈٹ پر مشتمل رپورٹ وزیر داخلہ کے آفس میں جمع کروائیں۔ وزیر داخلہ کا مزید کہنا تھا کہ غیر رجسٹرڈ اور غیر قانونی سکیورٹی کمپنیوں کے خلاف متعلقہ حکام کریک ڈاؤن کریں۔
دوسری جانب خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق دونوں چینی شہریوں کو زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے جن میں سے ایک کی حالت نازک ہے۔
حکام کی جانب سے فی الحال یہ واضح نہیں کیا گیا ہے اس واقعے کے محرکات کیا تھے اور زخمی ہونے والے چینی باشندے کس حیثیت میں کراچی میں موجود تھے۔
پاکستان میں چینی باشندوں کی بڑی تعداد چین پاکستان اقتصادی راہداری سے منسلک منصوبوں میں کام کرنے کے لیے موجود ہے اور گذشتہ چند برسوں کے دوران ان پر حملے کیے جاتے رہے ہیں۔
گذشتہ ماہ کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے قریب ایک بم دھماکے میں دو چینی انجینئرز ہلاک ہوئے تھے جس کی ذمہ داری بلوچستان کے ایک علیحدگی پسند گروہ نے قبول کی تھی۔ اس واقعے کے بعد حکومت نے پاکستان میں موجود چینی شہریوں کی سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے کئی اقدامات اٹھانے کا اعلان کیا تھا۔
-
سپریم کورٹ کے دو سینیئر ججز کا چیف جسٹس سے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستیں رواں ہفتے فُل کورٹ کے سامنے لگانے کا مطالبہ,شہزاد ملک، بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
سپریم کورٹ کے دو سینیئر ججز جن میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں، نے پاکستان کے چیف جسٹس کو ایک خط لکھا ہے۔
سپریم کورٹ کے دو سینیئر ججز کی جانب سے لکھ جانے والے اس خط میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کی جانب سے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت کمیٹی کا اجلاس نہ بلائے جانے پر انھوں نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کو فل کورٹ کے سامنے لگانے کا فیصلہ کیا تھا، تاہم رجٹسرار آفس کی جانب سے اس ضمن میں کوئی کاز لسٹ جاری نہیں کی گئی۔
ان دو ججز کی جانب سے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو لکھے گئے خط میں یہ کہا گیا ہے کہ انھوں نے کہا تھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت قائم کی گئی تین رکنی کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے جس میں 26ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواستوں کو سماعت کے مقرر کیا جائے لیکن اس ضمن میں چیف جسٹس کی جانب سے اجلاس نہیں بلایا گیا۔
اس خط میں انھوں نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی ایک شق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس کی جانب سے کمیٹی کا اجلاس نہ بلائے جانے پر ان دونوں ججز نے 31 اکتوبر کو اجلاس کیا جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کو فل کورٹ کے سامنے لگایا جائے۔
اس خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس ضمن میں رجسٹرار آفس کو کمیٹی کے اس اجلاس کو سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے اور ان درخواستوں کو 4 نومبر کو فل کورٹ کے سامنے لگانے کا کہا گیا لیکن اس حوالے سے جاری ہونے والی کاز لسٹ میں ان درخواستوں کا ذکر نہیں تھا۔
واضح رہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت اس تین رکنی کمیٹی کے کنوینر چیف جسٹس ہوتے ہیں جو اس کا اجلاس بلاتے ہیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے چیف جسٹس کا عہدہ سبنھالنے کے بعد پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو اپنی اصل حالت میں بحال کردیا تھا جس کے تحت سپریم کورٹ کے تین سینیئر ججز اس کمیٹی میں شامل ہیں جن میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر بھی شامل ہیں۔
اس سے پہلے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اس ایکٹ میں ترمیم کے بعد جسٹس منیب اختر کی جگہ جسٹس امین الدین کو اس کمیٹی میں شامل کیا تھا۔
دوسری جانب سپریم جوڈیشل کمیشن کا اجلاس آج سپریم کورٹ میں ہو رہا ہے اس اجلاس کی سربراہی چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کریں گے جبکہ اُن کے علاوہ سپریم کورٹ کے چار سینیئر ججز بھی شامل ہوں گے۔
اس جوڈیشل کمیشن میں 4 ارکان پارلیمنٹ بھی شریک ہوں گے اور 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقرری کے طریقہ کار کو تبدیل کیا گیا ہے اور اب یہ کمیشن اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تقرری کا فیصلہ کرے گا۔
-
جنرل عاصم منیر نومبر 2027 تک آرمی چیف رہیں گے: وزیر دفاع خواجہ آصف
وزیر دفاع خواجہ آصف کے مطابق پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نومبر 2027 تک اس عہدے پر موجود رہیں گے جس سے ’نظام کو تسلسل ملے گا۔‘
قومی اسمبلی اور سینیٹ نے پیر کو سروس چیفس کی مدت ملازمت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کرنے کی منظوری دی تھی۔
اس بارے میں بی بی سی اردو کے نامہ نگار عماد خالق سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ’چونکہ جنرل عاصم منیر کو نومبر 2022 کے دوران تعینات کیا گیا تھا لہذا اب وہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بعد نومبر 2027 تک آرمی چیف رہیں گے۔‘
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ’ماضی میں ایوب خان سے لے کر جنرل باجوہ تک، قریب تمام آرمی چیفس کو ایکسٹنشن ملی تاہم اب ہم نے مسلح افواج کے تینوں بازوؤں کے لیے قانون بنا دیا ہے۔ ہم نے اس میں کوئی تفریق نہیں کی ہے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں ایکسٹنشن کا سلسلہ ایوب خان کے دور میں شروع ہوا۔ اس کے بعد آٹھ، نو آرمی چیفس کو ایکسٹنشن دی گئی۔ ایوب خان، ضیا الحق، مشرف نے خود اپنے آپ کو ایکسٹنشن دی۔۔۔ یہ ساری ایکسٹنشنز افراد کے لیے تھیں۔ اب ہم نے اس حوالے سے قانون واضح کر دیا ہے۔‘
اس سوال پر کہ اس کی ضرورت کیوں پیش آئی، خواجہ آصف نے کہا کہ ’موجودہ حالات میں تسلسل کی ضرورت ہے اور یہ ضروری ہے کہ جو بھی مسلح افواج کا سربراہ ہو وہ اسمبلی اور دیگر اداروں کی پانچ سالہ مدت کی طرح مناسب وقت کے لیے بہتر دفاعی منصوبہ بندی کر سکے۔‘
وزیر دفاع نے کہا کہ ’سروس چیفس کی مدت میں طوالت سے نظام کو استحکام ملے گا اور یہ توقعات کے مطابق چل سکے گا۔‘ انھوں نے واضح کیا کہ ’آرمی چیف کی تعیناتی کا اختیار اب بھی ہمارے (حکومت کے) پاس ہی ہے۔‘
’ہم نے گنجائش نکالی ہے کہ کوئی کامن گراؤنڈ نکالا جائے۔ ہم نے نظام کو قانونی اور آئینی شکل میں ڈھالا ہے تاکہ قانون کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔‘
اپوزیشن جماعتوں بالخصوص تحریک انصاف کی جانب سے تنقید کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’وہ بھول گئے ہیں کہ ان کے رہنما سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ آرمی چیف قوم کا باپ ہوتا ہے۔‘
-
ججز کی تعداد میں اضافے کا بل قومی اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد سینیٹ سے بھی منظور,شہزاد ملک، بی بی سی اردو، اسلام آباد
سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کی تعداد میں اضافے کا بل قومی اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد پیر کے ہی روز سینیٹ سے بھی منظور کروا لیا گیا تاہم اس بل کی منظوری کے دوران دونوں ایوانوں میں اپوزیشن کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا۔
حکمراں اتحاد میں شامل جماعتوں نے سپریم کورٹ ایکٹ 1997 کی شق دو میں ترمیم کی گئی ہے جس کے تحت سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 17 سے بڑھا کر 34 کردی گئی ہے۔
اس کے علاوہ اسلام آباد ہائی کورٹ ایکٹ 2010 کی شق تین میں بھی تبدیلی کی گئی ہے جس کے تحت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کی تعداد نو سے بڑھا کر 12 کردی گئی ہے۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے سینیٹ کی قائمہ کمٹیی نے سینیٹر عبدالقادر کے بل کی حمایت کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 25 کرنے کی منظوری دی تھی۔
سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 34 کیوں کی گئی؟
حکومت کا یہ موقف رہا ہے کہ اس اقدام کی بنیادی وجہ عدالتِ عظمیٰ میں ہزاروں کی تعداد میں زیرِ التوا مقدمات کو نمٹانا ہے۔ سپریم کورٹ کے ریکارڈ کے مطابق اِس وقت عدالتِ عظمیٰ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 60 ہزار سے زیادہ ہے۔
پیر کو ایک بیان میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ ججز کی تعداد میں اضافہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کا مطالبہ تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سوچ بچار کے بعد سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد بڑھا کر 34 تک کر دی گئی ہے۔ اس سے نیچے 16 ہوں، 20 ہوں یا 28، اس تعداد کا تعین جوڈیشل کمیشن کرے گا کہ کتنے ججز کی ضرورت ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ججوں کی تعداد بڑھانے کا مقصد عوام کو انصاف کی جلد فراہمی ہے۔ ترمیم کے ذریعے مقدمات مقرر کرنے والی تین رکنی کمیٹی میں آئینی بینچ کے سربراہ کو بھی شامل کیا گیا۔‘
وزیر قانون نے واضح کیا کہ ’جوڈیشل کمیشن فیصلہ کرے گا کہ اسے آئینی بینچز میں کتنے ججز چاہییں اور رجسٹری بنچز پہ کتنے چاہیں۔‘
کیسز کے بوجھ کو ایک وجہ بیان کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ’اسلام آباد ہائی کورٹ میں پینڈنسی دن بدن بہت بڑھ رہی ہے۔‘
ادھر تحریک انصاف نے اس کی مخالفت کی ہے۔ اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جماعت کے سربراہ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ حکومت نے ’آج تک کوئی بھی قانون ایسا پاس نہیں کیا جو قانون کے مطابق ہو۔ اس وقت صرف انڈیا میں سپریم کورٹ کے 33 ججز ہیں۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’یہ لوگ صرف اپنی مرضی کے ججز لانا چاہ رہے ہیں اور یہی ان کا ایجنڈا ہے۔‘
-
سروسز چیفس کی مدت ملازمت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کرنے کا بل قومی اسمبلی سے منظور,شہزاد ملک، بی بی سی اردو، اسلام آباد
پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ نے مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کرنے کا ترمیمی بل پیر کے روز کثرتِ رائے سے منظور کر لیا۔
اس بل کے تحت پاکستان کی بری فوج، بحریہ اور فضائیہ کے سربراہان کی مدت ملازمت تین سال سے بڑھا کر اب پانچ سال کر دی گئی ہے۔
سوموار کے روز اجلاس کے دوران وزیر دفاع خواجہ آصف نے ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ جس کے تحت پاکستان کے بری فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت میں اضافے کے لیے آرمی ایکٹ 1952 کی شق 8 اے، 8 بی اور 8 سی میں ترمیم کی گئی۔
اسی طرح بحریہ کے سربراہ کی مدت ملازمت میں اضافے کے لیے پاکستان نیوی آرڈیننس 1961 کی شق 14 اے، 14 بی اور 14 سی میں تبدیلی کی گئی ہے۔ اور پاکستان کی فضائیہ کے سربراہ کی مدت ملازمت میں اضافے کے لیے پاکستان ائیر فورس ایکٹ 1953 کی شق 10 اے، 10 بی اور 10 سی میں تبدیلی کی گئی ہے۔
اس دوران قومی اسمبلی کے اجلاس میں حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے مسلسل احتجاج اور ’نو نو‘ کے نعرے لگائے گئے۔
بل کو کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔ اس بل کی سینیٹ سے منظوری کے بعد اس کا اطلاق فوری ہو گا۔
اس بل میں ترمیم کے بعد پاکستان کی بری فوج میں جنرل کی ریٹائرمنٹ کے قواعد کا اطلاق آرمی چیف پر نہیں ہو گا، تعیناتی، دوبارہ تعیناتی یا ایکسٹینشن کی صورت آرمی چیف بطور جنرل کام کرتا رہے گا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل آرمی ایکٹ کے تحت آرمی چیف سمیت تمام سروسز چیفس کی مدت ملازمت تین سال مقرر تھی اور ایگزیکٹیو کے اختیارات کے تحت آرمی چیف کو تین سال کی ایکسٹینشن دی جاتی رہی تھی۔
آخری بار مدت ملازمت میں توسیع جنرل قمر جاوید باجوہ کو دی گئی تھی اور ان کی ایکسٹیشن کی منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں ایک متفقہ قرارداد بھی منظور کی گئی تھی جس کے بعد ایگزیکٹیو نے ان کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کر دی تھی۔
سپیکر کی جانب سے بلز کی منظوری کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس منگل کی صبح 11 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔
-
سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد بڑھانے کا بل سینیٹ و قومی اسمبلی سے کثرت رائے سے منظور، سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد 34 تک ہو گی: وزیر قانون
پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ نے پیر کے روز سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد بڑھانے کا بل کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔
اس ترمیمی بل کے تحت سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد 17 سے بڑھا کر 34 تک کر دی گئی ہے۔
پیر کو قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی زیر صدارت ہوا جس میں سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد بڑھانے سے متعلق ترمیمی بل پیش کیا گیا۔
سپریم کورٹ میں نمبر آف ججز ایکٹ میں ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پیش کیا اور بتایا کہ اس بل کے تحت سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 17 سے بڑھا کر 34 تک کر دی گئی ہے۔
حکمراں اتحاد میں شامل جماعتوں نے سپریم کورٹ ایکٹ 1997 کی شق 2 میں ترمیم کرتے ہوئے اس کے تحت سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 17 سے بڑھا کر 34 تک کی ہے۔
اس کے علاوہ اسلام آباد ہائی کورٹ ایکٹ 2010 کی شق 3 میں بھی تبدیلی کی گئی ہے جس کے تحت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کی تعداد 9 سے بڑھا کر 12 کر دی گئی ہے۔
اس ترمیمی بل کے تحت سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 34 کی جا سکتی ہے، جوڈیشل کمیشن آف پاکستان ضرورت کے مطابق ججز کی تعداد میں اضافہ کر سکے گا،ججز کی تعداد میں اضافے کے فیصلے کا اختیار جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کو ہے۔
سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کی تعداد میں اضافے کا بل قومی اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد سینٹ سے بھی منظور کروالیا گیا ہے تاہم دونوں ایوانوں میں اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا ہے۔
وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد اب آئینی عدالت بنائی جانی ہے۔ اس کے لیے بھی ججز چاہیے ہیں۔ ججز کی تعداد بڑھانے کا مقصد زیر التوا مقدمات کی تعداد کم کرنا ہے۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے سینیٹ کی قائمہ کمٹیی نے سینیٹر عبدالقادر کے بل کی حمایت کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 25 کرنے کی منظوری دی تھی۔
بل کی شق وار منظوری کا عمل ہوا تو اس دوران اپوزیشن کی جانب سے مسلسل شور شرابا کیا گیا اور احتجاج کیا گیا تاہم اس دوران کثرت رائے سے اس بل کی مظوری دے دی گئی۔
-
سٹیٹ بینک نے ڈھائی فیصد کمی کے ساتھ شرح سود 15 فیصد کر دی
سٹیٹ بینک آف پاکستان نے پیر کے روز شرح سود میں ڈھائی فیصد کمی کا اعلان کیا جس کے بعد اب شرح سود 15 فیصد پر آ گئی ہے۔ سٹیٹ بینک کے مطابق اس کمی کا اطلاق پانچ نومبر سے ہو گا۔
سٹیٹ بینک کے اعلامیے کے مطابق زری پالیسی کمیٹی نے پیر کے روز ہونے والے اجلاس میں پالیسی ریٹ کو 250 بیسز پوائنٹس کم کر کے 15 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا۔
سٹیٹ بینک کا بیان میں کہنا ہے کہ ’مہنگائی توقع سے زیادہ تیزی سے کم ہوئی ہے اور اکتوبر میں اپنے وسط مدتی ہدف کے قریب پہنچ گئی ہے۔‘
یاد رہے اس سے قبل 12 ستمبرکو سٹیٹ بینک نے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے بنیادی شرح سود میں 200 بیسس پوائنٹس کی کمی کر کے 17.5 فیصد مقرر کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔
جبکہ اس سے قبل 29 جولائی کو مانیٹری پالیسی کے حوالے سے پریس بریفنگ دیتے ہوئے سٹیٹ بینک کے حکام نے شرح سود 20.5 فیصد سے کم کرکے 19.5 فیصد کرنے کا اعلان کیا تھا۔
سٹیٹ بینک کے بیان کے مطابق ’آئی ایم ایف بورڈ نے پاکستان کے نئے پروگرام کی منظوری دی جس سے غیر یقینی کیفیت میں کمی ہوئی ہے اور مجوزہ بیرونی رقوم کی آمد کے امکانات بہتر ہوئے ہیں۔
اپنے بیان میں سٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ غذائی مہنگائی میں تیز رفتار تنزلی، عالمی سطح پر تیل کی موافق قیمتیں، متوقع گیس ٹیرف اور پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی کو ایڈجسٹ نہیں کی گئیں، جس کے نتیجے میں مہنگائی کم ہوئی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ زری پالیسی کمیٹی اب یہ توقع کرتی ہے کہ مالی سال 2024 کے لیے اوسط مہنگائی پچھلی پیش گوئی کی حد 11.5 سے 13.5 فیصد سے نمایاں طور پر کم رہے گی۔
-
گزشتہ روز کی چند اہم خبریں
گزشتہ روز کی چند اہم خبروں پر ایک نظر:
- سٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود میں ڈھائی فیصد کمی کا اعلان کر دیا ہے جس کے بعد اب شرح سود 15 فیصد پر آ گئی ہے۔ سٹیٹ بینک کے مطابق اس کمی کا اطلاق پانچ نومبر سے ہو گا۔
- اسرائیلی فوج نے جنوبی لبنان میں ایک فضائی حملے میں حزب اللہ کے کمانڈر ابو علی ردا کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
- ایران کی پاسداران انقلاب کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں پیر کے روز کہا گیا کہ صوبہ گلستان کے نینویٰ بریگیڈ کے کمانڈر حامد مازندرانی ایک فضائی حادثے میں مارے گئے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ سراوان کے علاقے میں آپریشنل مشقوں کے دوران پاسداران انقلاب کی گراؤنڈ فورس کا ایک جائروپلین (چھوٹا ہوائی جہاز) سرحدی علاقے سرکان میں حادثے کا شکار ہوا۔
- پیر کے روز ڈاکٹروں کی ایک چار رکنی ٹیم نے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیر اعظم اور بانی پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کا طبی معائنہ کیا۔ عمران خان کا معائنہ کرنے والی ٹیم میں پمز ہسپتال کے تین ڈاکٹروں کے علاوہ شوکت خانم ہسپتال سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عاصم یونس بھی شامل تھے۔ میڈیکل بورڈ کی تیار کردہ رپورٹ اسلام اباد ہائی کورٹ میں پیش کی جائے گی۔
- 11/5/2024
- تاریخ
-
