اداریہ شائع July 23, 2025
وزیرِاعظم شہبازشریف نے مالی سال 2024-25 میں 2.1 ارب امریکی ڈالر کے کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس کو جو کہ 14 سال میں پہلی بار اور 22 سال میں سب سے بڑا ہے، ایک تاریخی سنگِ میل قرار دیا۔
اگرچہ ناقدین کرنٹ اکاؤنٹ کے بعض عناصر جیسے ترسیلاتِ زر اور درآمدات کو محدود کرنے کے انتظامی اقدامات کے ذرائع پر سوال اٹھاتے ہیں تاہم یہ سرپلس کسی طور معمولی کامیابی نہیں۔
تاہم بنیادی سوال اب بھی باقی ہے: کیا ادائیگیوں کے توازن کا مسئلہ — جس میں کرنٹ اکاؤنٹ صرف ایک جزو ہے — جو کہ معیشت کے بار بار عروج و زوال کے شکار ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے، مستقل طور پر ختم ہو چکا ہے؟ یہ وہ مسئلہ ہے جس نے پاکستان کو بارہا آئی ایم ایف پروگرام حاصل کرنے پر مجبور کیا ہے — اور اس وقت ملک چوبیسویں پروگرام کا حصہ ہے۔ اس منفی چکر کی جڑ درآمدات میں مسلسل اضافے میں ہے، خاص طور پر خام مال اور نیم تیار شدہ اشیاء کی، تاکہ زیادہ شرحِ نمو حاصل کی جاسکے جبکہ برآمدات کمزور ہی رہتی ہیں کیونکہ وہ زیادہ تر زرعی نوعیت کی ہیں جن کی عالمی منڈی میں قیمت میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا۔
ستمبر 2024 میں منظور شدہ جاری آئی ایم ایف پروگرام سے متعلق دستاویزات ایک انتہائی تشویشناک تصویر پیش کرتی ہیں: پاکستان اقتصادی پیچیدگی کے اشاریے میں 85 ویں نمبر پر ہے — وہی درجہ جو اسے سال 2000 میں حاصل تھا۔ برآمدات کا رجحان اب بھی زیادہ تر زراعت اور ٹیکسٹائل پر مرکوز ہے، اور ملک تاحال اپنے وسائل کو ٹیکنالوجی سے بھرپور اور زیادہ پیچیدہ مصنوعات کی تیاری کی طرف منتقل کرنے میں ناکام رہا ہے۔
وسائل کی ازسرِ نو تقسیم کو موجودہ معاشی بگاڑ روک رہا ہے، جن میں زرعی اجناس کی سرکاری خریداری، خام مال پر قیمتوں کا کنٹرول اور کم پیداواری شعبوں کے لیے مالی و ٹیکس مراعات شامل ہیں؛ جب کہ ریاست کی جانب سے کاروبار کو سبسڈی، سازگار ٹیکس نظام، تحفظ اور سرکاری نرخ بندی کے ذریعے دی جانے والی حمایت نے ایک متحرک اور برآمدات پر مبنی معیشت کی ترقی کو نقصان پہنچایا ہے، اور ساتھ ہی انفرااسٹرکچر میں ناکافی سرمایہ کاری نے پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کے لیے غیرمحفوظ بنا دیا ہے۔
وزارتِ خزانہ کی جانب سے جاری کردہ دو اہم معاشی اشاریے آئی ایم ایف کے ان تشویشناک دعوؤں کی صداقت کی تصدیق کرتے ہیں۔
اول، گزشتہ مالی سال بڑے پیمانے کی صنعت (ایل ایس ایم) منفی زون میں رہی — جولائی سے اپریل 2025 کے دوران 1.52 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی جو پچھلے سال کے اسی عرصے میں 0.26 فیصد تھی — حالانکہ نجی شعبے کو دیے گئے قرضے دگنے ہو گئے، یعنی 2023-24 میں 323.5 ارب روپے سے بڑھ کر 2024-25 میں 676.6 ارب روپے تک پہنچ گئے؛ جس سے یہ تاثر مضبوط ہوا کہ یہ قرضے غیر پیداواری شعبوں میں استعمال ہوئے۔ دوم، غیر ملکی پورٹ فولیو سرمایہ کاری کا انخلا 559.5 ملین امریکی ڈالر سے بڑھ کر 624.4 ملین امریکی ڈالر ہو گیا، جو اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ مجموعی غیر ملکی سرمایہ کاری کی آمد 2024 میں 1582.9 ملین امریکی ڈالر سے کم ہو کر 2025 میں 1354.4 ملین امریکی ڈالر رہ گئی۔
کرنٹ اکاؤنٹ پر توجہ مرکوز کرنے سے جو پہلو نظرانداز ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ حکومت کی بیرونی قرضوں پر انحصار کو نظر میں رکھا جائے، جس کی تفصیلات مالیاتی کھاتے (فنانشل اکاؤنٹ) میں شامل ہوتی ہیں — جو ادائیگیوں کے توازن کا ایک اور اہم جزو ہے۔ جون 2025 میں مالیاتی کھاتہ 2785 ملین امریکی ڈالر منفی رہا، جبکہ جون 2024 میں یہ منفی 900 ملین، جون 2023 میں منفی 743 ملین، جون 2022 میں منفی 2856 ملین اور جون 2021 میں — جب ملک کورونا کے اثرات سے نبرد آزما تھا — منفی 3037 ملین امریکی ڈالر رہا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ویب سائٹ کے مطابق مجموعی ادائیگیوں کا توازن 2025 میں منفی 3147 ملین امریکی ڈالر رہا، جو 2024 میں منفی 500 ملین، 2023 میں منفی 1133 ملین، 2022 میں منفی 632 ملین، اور 2021 میں منفی 1618 ملین امریکی ڈالر تھا۔
سال 2025 میں زرمبادلہ ذخائر غیر معمولی طور پر بڑھ کر 9.1 ارب امریکی ڈالر تک پہنچ گئے؛ تاہم دوست ممالک سے تقریباً 16 ارب ڈالر کی رول اوور سہولت کے تناظر میں یہ اعداد و شمار زیادہ اطمینان بخش نہیں سمجھے جاسکتے۔
لہٰذا یہ سمجھنا نہایت اہم ہے کہ وہ عروج و زوال کا چکر (بوم۔ بسٹ سنڈوروم) جس نے ملک کی معاشی کارکردگی کو مسلسل متاثر کیا ہے، آج بھی برقرار ہے۔ امید صرف اسی صورت میں کی جا سکتی ہے جب کچھ دور رس ساختی اصلاحات نافذ کی جائیں، تاکہ معیشت کے مسلسل غلط انتظام کا ازالہ ہو — جو اس وجہ سے ہوتا رہا ہے کہ آنے والی ہر اقتصادی ٹیم نے آئی ایم ایف کی تشخیص سے نہیں، بلکہ اُن پالیسی تجاویز سے چیلنج کرنے سے گریز کیا جو اگرچہ دیگر ممالک پر لاگو ہو سکتی ہیں، لیکن پاکستان کی زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتیں۔
DATE . July/24/2025