امریکی صدر جو بائیڈن کے دوبارہ صدارتی انتخاب میں حصہ لینے سے انکار کے بعد ایک گھنٹے سے بھی کم وقت لگا ہو گا جب ڈیموکریٹ پارٹی کے کارکنان نے 2024 کے صدارتی انتخابات کے لیے کملا ہیرس کی بطور صدارتی امیدوار حمایت کر دی۔
امریکہ کی تاریخ کی پہلی خاتون نائب صدر کملا ہیرس نے 22 اگست کی رات ڈیموکریٹک پارٹی کے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے صدارتی الیکشن میں پارٹی کی جانب سے نامزدگی باقاعدہ طور پر قبول کی۔
رواں برس نومبر میں ہونے والے امریکی صدر کے انتخابات میں ان کا مقابلہ سابق صدر اور ریپبلیکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ سے ہے۔
امریکی نائب صدر کملا ہیرس ملک کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہونے والی پہلی خاتون بننے کی خواہشمند ہیں۔ ان کی مہم لبرل ووٹروں کو دوبارہ متحرک کر رہی ہے۔
انھوں نے پچھلے دو ماہ کے دوران ریکارڈ 60 کروڑ 71 لاکھ کے عطیات اکٹھے کیے ہیں جبکہ یہ رقم ان کے ریپبلکن حریف ڈونلڈ ٹرمپ کے عطیات سے تقریباً تین گنا زیادہ ہے۔
رواں سال اگست میں شکاگو میں ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن( ڈی این سی) سے خطاب کرتے ہوئے کملا ہیرس نے تمام امریکیوں کی قیادت کرنے اور ایک ایسی معیشت بنانے کا عہد کیا جس میں تمام افراد کے لیے مواقع دستیاب ہوں۔
غزہ جنگ کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کا وقت آ گیا ہے۔
کملا ہیرس امریکہ کی صرف پہلی خاتون نائب صدر ہی نہیں بلکہ ان کے والدین کے جمیکا اور انڈیا سے تعلق کی وجہ سے وہ پہلی سیاہ فام شخصیت بھی ہیں جو امریکہ کے نائب صدر کے عہدے پر فائز رہیں۔
ان کا نائب صدر بننے کا سفر مشکلات سے بھرپور تھا۔ اُن واقعات پر ایک نظر ڈالتے ہیں جنھوں نے ان کی شخصیت کو ڈھالنے میں اہم کردار ادا کیا اور وہ کیسے امریکہ کی پہلی سیاہ فام خاتون صدارتی امیدوار نامزد ہونے میں کامیاب ہوئیں۔
کملا ہیرس کا ڈسٹرکٹ اٹارنی سے نائب صدر تک کا سفر
محض پانچ سال قبل کی بات ہے کہ کیلیفورنیا کی سینیٹر کملا ہیرس ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے صدارتی امیدوار کے لیے نامزدگی حاصل کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
انھوں نے اپنے کیریئر کا آغاز المیڈا کاؤنٹی کے ڈسٹرکٹ اٹارنی آفس سے کیا اور سنہ 2003 میں وہ سان فرانسسکو کی ڈسٹرکٹ اٹارنی بنیں۔
بعد ازاں وہ امریکہ کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست کیلیفورنیا کی پہلی خاتون اور سیاہ فام اٹارنی جنرل منتخب ہوئیں۔
انھوں نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 2017 میں کیلیفورنیا سے جونیئر سینیٹر بننے کی کوشش کی جس میں وہ کامیاب رہیں۔
سنہ 2020 میں کملا نے ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے صدارتی امیدوار کی نامزدگی کی دوڑ میں حصہ لیا تاہم ان کی برجستہ تقریر کرنے کی صلاحیت کے باوجود وہ اس دوڑ سے جلد ہی باہر ہو گئیں اور ڈیموکریٹک پارٹی کی نامزدگی کا قرعہ ان کے مخالف جو بائِیڈن کے نام کھلا جو آگے جا کر امریکہ کے صدر منتخب ہوئے۔
یہ جو بائیڈن ہی تھے جنھوں نے ان کو اپنے نائب صدر کے طور پر نامزد کر کے انھیں ایک بار پھر امریکی عوام کی توجہ کا مرکز بننے میں مدد دی۔
گل ڈوران سنہ 2013 میں کملا ہیرس کے کمیونیکیشن ڈائریکٹر تھے۔ وہ اسے ’قسمت کی مہربانی‘ کہتے ہیں۔
’بہت سے لوگوں کو نہیں لگتا تھا کہ ان میں اتنا نظم و ضبط اور توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت ہے کہ وہ اتنی جلدی وائٹ ہاؤس میں کسی عہدے تک پہنچ سکیں حالانکہ لوگ جانتے تھے کہ ان کے پاس مضبوط ارادہ اور سٹار بننے کی قابلیت ہے۔ یہ تو ہمیشہ سے واضح تھا کہ ان میں ٹیلنٹ ہے۔‘
وائٹ ہاؤس میں اپنے وقت کے دوران کملا ہریس نے کئی اہم معاملات پر اقدامات کیے۔ اس کے علاوہ بائیڈن انتظامیہ کی کچھ اہم کامیابیوں میں بھی ان کا اہم کردار رہا۔
انھوں نے اسقاط حمل پر پابندی سے ہونے والے نقصانات کو اجاگر کرنے کے لیے ملک بھر میں مہم چلائی۔
امریکہ کی سپریم کورٹ کی جانب سے 2022 میں اسقاط حمل کے آئینی حق کو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد انھوں نے کانگریس سے عورتوں کو استقاط حمل کا حق دینے کا بھی مطالبہ کیا۔
اگست میں ڈیموکریٹک کنونشن میں تولیدی حقوق پر بحث کا مرکز بنی رہی۔ اس بحث کا ایک بنیادی پیغام تھا: آزادی۔
ڈیموکریٹک کنونشن میں اپنے خطاب، جو ان کے کیریئر کی سب سے اہم تقریر تھی، کملا ہیرس نے ملک بھر میں اسقاط حمل کو محدود کرنے کی غیر مقبول کوششوں پر ٹرمپ اور ریپبلکنز پر تنقید کی۔
اسقاط حمل کے آئینی حق کو بحال کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے انھوں نے ٹرمپ اور ریپبلکنز، جن کی حکومت میں اس حق کو غیر فعال قرار دے دیا گیا تھا، پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’سادہ الفاظ میں ان کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔‘
سینیٹ کی تاریخ میں کملا ہیرس نے بطور نائب صدر سب سے زیادہ ٹائی بریک کرنے والے ووٹوں کا نیا ریکارڈ قائم کیا۔ ان کے ووٹوں نے افراط زر میں کمی کے ایکٹ اور امریکی ریسکیو پلان جس کے تحت کورونا سے نمٹنے کے لیے ریلیف فنڈز دیے گئے، کی منظوری میں مدد ملی۔
تاہم اس کے باوجود وہ امریکیوں میں بڑے پیمانے پر پذیرائی حاصل نہیں کر پائیں۔
،تصویر کا ذریعہReuters
ہیرس خود کو ووٹروں کے سامنے نئے سِرے سے متعارف کروانے کی بھی کوشش کر رہی ہیں کیونکہ کچھ پولز کے مطابق کئی لوگ ٹرمپ کو سیاسی نظریات میں مرکز کے قریب سمجھتے ہیں۔
ہم جنس پرست جوڑوں کی شادی اور سزائے موت جیسے مسائل پر ان کا بائیں بازو کی جانب جھکاؤ ہونے کے باوجود انھیں کچھ ڈیموکریٹک ووٹروں کی جانب سے بار بار حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔
2020 کی انتخابی مہم کے دوران ایک تنقید جس کا انھیں بار بار سامنا کرنا پڑا وہ یہ تھا کہ ’کملا پولیس کی طرح ہیں۔‘
تاہم چار سال بعد آج کملا ہیرس واقعی خود کو ایک پولیس اہلکار کے طور پر پیش کر رہی ہیں جو سزا یافتہ مجرم ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف کریک ڈاؤن کریں گی۔
اس کے علاوہ اگر وہ صدر منتخب ہو گئیں تو وہ ایک ایسا ترقی پسند ایجنڈا پیش کرنے کا بھی وعدہ کر رہی ہیں جس سے ان جیسے متوسط طبقے کے خاندانوں کو ترقی ملے گی۔
انھوں نے کہا کہ ’میرے پورے کیریئر میں میرے پاس صرف ایک ’کلائنٹ‘ تھا: وہ تھے عوام۔‘
صدر بائیڈن کی جانب سے کملا ہیرس کو تارکین وطن کا ریکارڈ تعداد میں امریکہ میکسیکو کی سرحد کی جانب رخ کرنے کے پیچھے موجود محرکات جاننے اور ان کو حل کرنے کا ہدف دیا گیا۔
یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی جانب ان کے ناقدین اشارہ کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں خاطر خواہ پیشرفت نہیں کر پائیں۔
ریپبلکنز اور کچھ ڈیموکریٹس کی جانب سے ان پر اس بات پر بھی تنقید کی جاتی رہی ہے کہ انھوں نے نائب صدر بننے کے بعد سرحدی علاقے کا دورہ کرنے میں چھ مہینے لگا دیے۔
اگرچہ اس سال غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے کے واقعات میں ڈرامائی طور پر کمی آئی، یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا وہ اس کامیابی کو صدارتی انتخابات میں اپنے فائدے کے لیے استعمال کر پاتی ہیں یا نہیں۔
کملا ہیرس جن کی پرورش انڈین والدہ نے کی
کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والی ڈیموکریٹ امیدوار آکلینڈ شہر میں دو تارکین وطن والدین کے ہاں پیدا ہوئیں۔ ان کی والدہ انڈیا جبکہ والد جمیکا سے تھے۔
والدین کی طلاق کے بعد کملا ہیریس کی پرورش بنیادی طور پر ان کی ہندو والدہ شیاملا گوپالن ہیریس نے کی جو کہ کینسر کے شعبے میں محقق اور شہری حقوق کی سرگرم کارکن تھیں۔
کملا ہیرس اکثر اُن اسباق کے بارے میں بات کرتی ہیں جو ان کی والدہ نے انھیں اور ان کی بہن کو دیے۔
اگست میں ڈی این سی میں اپنے خطاب میں انھوں نے کہا کہ ان کی والدہ ’سخت اور دلیر خاتون تھیں۔ خواتین کی صحت کی لڑائی میں ایک ’ٹریل بلزر‘ تھیں۔ انھوں نے ہمیں ہمیشہ یہی سکھایا کہ ناانصافی ہو رہی ہو تو شکایت نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس کے بارے میں کچھ عملی اقدام کرنا چاہیے۔‘
کملا ہیرس اپنے انڈین ثقافتی پس منظر میں پلی بڑھیں اور اپنی والدہ کے ساتھ وہ انڈیا کے دورے پر آتی رہتی تھیں لیکن ان کی والدہ نے پوری طرح آکلینڈ کی سیاہ فام ثقافت کو اپنا لیا تھا اور انھوں نے اپنی دو بیٹویوں کملا اور ان کی چھوٹی بہن مایا کو اسی تہذیب و ثقافت میں رچا بسا دیا تھا۔
’دی ٹروتھ وی ہولڈ‘ نامی اپنی خود نوشت میں کملا لکھتی ہیں کہ ’میری والدہ اچھی طرح سمجھتی تھیں کہ وہ دو سیاہ فام بیٹیوں کی پرورش کر رہی ہیں۔ انھیں پتا تھا کہ جس ملک کو انھوں نے اپنایا، وہ مجھے اور مایا کو دو سیاہ فام لڑکیوں کے طور پر دیکھے گا۔ اس لیے وہ یہ یقین دہانی کرنا چاہتی تھیں کہ ہم پرُاعتماد اور فخر کرنے والی سیاہ فام خاتون کے طور پر بڑے ہوں۔‘
ہیرس نے بچپن میں کچھ وقت کینیڈا میں بھی گزارا۔ جب گوپالن نے میک گل یونیورسٹی میں تعلیم و تدریس کا انتخاب کیا تو وہ اپنے ساتھ کملا اور ان کی چھوٹی بہن مایا کو بھی لے گئیں جنھوں نے مونٹریل کے سکول میں پانچ سال تک تعلیم حاصل کی۔
انھوں نے امریکہ میں کالج کی تعلیم حاصل کی اور چار سال ہاؤرڈ یونیورسٹی میں گزارے جو ملک میں تاریخی اعتبار سے سیاہ فام کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے۔
،تصویر کا ذریعہKamala Harris
وہ ہاؤرڈ یونیورسٹی میں گزرے وقت کو اپنی زندگی کے سب سے تخلیقی تجربات میں سے ایک قرار دیتی ہیں۔
لیٹا روزاریو رچرڈسن کی کملا ہیرس سے ملاقات 1980 کی دہائی میں ہوئی۔ اس زمانے میں ہاؤرڈ میں طلبا کیمپس میں جمع ہوتے اور سیاست، فیشن سمیت مختلف موضوعات پر گفتگو کیا کرتے تھے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے دیکھا کہ ان کی بحث کرنے میں بہت دلچسپی تھی۔‘
دھیرے دھیرے ان کا آپسی تعلق بڑھتا گیا۔ وہ دونوں مل کر کیمپس میں ریپبلکنز کے ساتھ پُرجوش بحث و مباحثے میں حصہ لیتی تھیں، ان کا سنگل ماؤں کے ساتھ پلنے کا تجربہ انھیں اور نزدیک لے آیا۔
سیاسی اعتبار سے یہ ایک ایسا دور تھا جب تبدیلیاں آ رہی تھی۔
لیٹا کہتی ہیں کہ ’رونلڈ ریگن‘ اس وقت صدر تھے اور یہ نسل پرستی کا دور تھا۔ ’ٹرانس افریقہ‘ اور مارٹن لوتھر کنگ کی یاد میں چھٹیوں کے معاملے پر بہت سی باتیں ہو رہی تھیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہمارے آباؤ اجداد غلام تھے اور نوآبادیاتی علاقوں سے تعلق رکھنے کے باعث ہمیں اندازہ تھا کہ تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے ہمیں معاشرے میں ایک خاص مقام حاصل ہے اور ہمیں تبدیلی لانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔‘
یہ ایک ایسا فلسفہ ہے جو یونیورسٹی کے تجربے کا حصہ تھا اور جس نے کملا ہیرس کی شخصیت کو ڈھالنے میں اہم کردار ادا کیا۔
تاہم سیاہ فام ہونے کے باوجود کملا ہیرس سفید فام کمیونٹیز میں بھی با آسانی کام کرتی ہیں۔
کملا ہیرس کا کہنا ہے کہ وہ اپنی شناخت سے متعلق ہمیشہ مطمئن رہیں اور اپنے آپ کو محض ’امریکی‘ کہتی ہیں۔
سنہ 2019 میں انھوں نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ سیاستدانوں کو اپنے رنگ یا پس منظر کی وجہ سے خانوں میں فٹ نہیں ہونا چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ ’میرا کہنا بس یہ ہے کہ میں جو ہوں سو ہوں۔ میں اس کے ساتھ اچھی ہوں۔ آپ کو اس کا اندازہ لگانے کی ضرورت پڑ سکتی ہے لیکن میں اس کے ساتھ ٹھیک ہوں۔‘
،تصویر کا ذریعہReuters
حسِ مزاح سے بھرپور شخصیت کی حامل کملا
جیسا کہ کملا کی دوست لیٹا بتاتی ہیں ان میں ابتدا ہی سے وہ صلاحیتیں نمایاں تھیں جن کی بنیاد پر ان کا شمار ان چند خواتین میں کیا جا سکتا تھا جو ہر طرح کی رکاوٹیں عبور کرنے کی قابل ہوتی ہیں۔
مزاح کملا کے مزاج کا حصہ ہے۔ اس کی واضح مثال الیکشن جیتنے کے بعد 2020 میں ان کی جانب سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جانے والی ایک ویڈیو ہے جس میں وہ دل کھول کر ہنستے ہوئے بائیڈن کو کہتے دکھائی دیتی ہیں کہ ’ہم نے کر دکھایا، ہم نے کر دکھایا جو۔ آپ امریکہ کے اگلے صدر بننے جا رہے ہیں‘!
ان کی دوست اس ہنسی کو بخوبی پہچانتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ’وہ ہمیشہ ایسے ہی ہنستی تھیں۔‘
لیٹا کے مطابق حسِ مزاح ہمیشہ سے کملا کی شخصیت کا حصہ رہے ہیں اور یونیورسٹی کے دور میں وہ ان کا استعمال مباحثوں کے دوران پوائنٹ حاصل کرنے کے لیے بھی کرتی تھیں۔
انھوں نے اپنی اس صلاحیت کا استعمال ڈیموکریٹک صدارتی نامزدگی کے لیے ہونے والے مناظروں کے دوران اپنے مخالفین کے خلاف بھی کیا۔
،تصویر کا ذریعہBloomberg via Getty Images
کملا ہیرس اور ’مومیلا‘
سنہ 2014 میں کملا ہیرس نے وکیل ڈگلوس ایمہوف سے شادی کی۔ ڈگلوس ایمہوف کے پہلے سے دو بچے تھے جن کا نام کول اور ایلا ہے۔
انھوں نے اس تجربے کے بارے میں 2019 میں ’ایل‘ میگزین کے لیے ایک مضمون بھی لکھا۔
’جب ڈَگ اور میری شادی ہوئی تو کول، ایلا اور میں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ہمیں ’سوتیلی ماں‘ کی اصطلاح پسند نہیں۔ اس کے بجائے انھوں نے ’مومیلا‘ نام تجویز کیا۔‘
کملا کے سوتیلے بچے کول اور ایلا اپنے والد کے ساتھ 2024 میں منعقدہ ڈیموکریٹک کنونشن میں شرکت کے دوران توجہ کا مرکز بنے۔ کملا ہیرس کے ساتھ سٹیج پر کھڑے ہوئے جسے وہ اپنی ’ہنستی کھیلتی بڑی فیملی‘ کہتے ہیں۔
ان کی بہن مایا، بھانجی مینا اور ان کی دو نواسیوں نے بھی شکاگو میں منعقد ہوئے اس کنونشن میں حصہ لیا۔
انھیں جدید امریکی خاندان کے طور پر پیش کیا جانے لگا جس پر امریکی میڈیا میں بہت بحث ہوئی۔ اس بحث نے اس جانب بھی توجہ مبذول کروائی لوگ خواتین سیاستدانوں کے بارے میں کیسے بات کرتے ہیں۔
بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ کملا ہیرس کو ایک اور قسم کے خاندان سے منسلک کرنا اور پہچانا جانا چاہیے۔ ان کے مطابق کملا ہیرس سیاہ فام خواتین کارکنوں کی نسلوں کی وارث ہے۔
پرڈیو یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس اور افریقی امریکن سٹڈیز کی ایسوسی ایٹ پروفیسر نادیہ براؤن نے بی بی سی کو بتایا کہ کملا ہیرس فینی لو ہیمر، ایلا بیکر اور سیپٹیما کلارک کے نقش قدم پر چل رہی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’وہ نچلی سطح کے منتظمین، منتخب عہدیداروں، اور ناکام امیدواروں کی جدوجہد کی وارث ہیں جنھوں نے وائٹ ہاؤس تک (سیاہ فام خواتین کے لیے) راستہ ہموار کیا۔‘



