
اقوامِ متحدہ- پاکستان نے ایک بار پھر عالمی برادری کی توجہ افغانستان، خطے اور دنیا کو درپیش سب سے بڑے خطرے یعنی افغانستان میں موجود 20 سے زائد دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی کی طرف مبذول کرائی ہے۔
پاکستان نے اس امر پر بھی روشنی ڈالی کہ افغان عبوری حکومت خطے اور عالمی امن کو لاحق خطرات سے نمٹنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ ان خطرات میں القاعدہ، تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور مجید بریگیڈ جیسی تنظیمیں شامل ہیں، جو پاکستان اور خطے کی سلامتی کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، پاکستان کے مستقل مندوب سفیر منیر اکرم نے کہا کہ ٹی ٹی پی افغانستان میں مختلف دہشت گرد گروہوں کے لیے ایک چھتری تنظیم کے طور پر ابھر رہی ہے، جس کا مقصد خطے کے تمام ممالک کی سلامتی اور استحکام کو نقصان پہنچانا ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ ٹی ٹی پی کی القاعدہ کے ساتھ طویل وابستگی اسے عالمی سطح پر دہشت گردی کے خطرے میں تبدیل کر سکتی ہے۔
سفیر منیر اکرم نے بتایا کہ 6000 جنگجوؤں پر مشتمل ٹی ٹی پی افغانستان میں سرگرم سب سے بڑی نامزد دہشت گرد تنظیم ہے، جو سرحدی محفوظ پناہ گاہوں سے پاکستان پر حملے کرتی ہے۔ ان حملوں میں پاکستانی فوجی، شہری اور ریاستی ادارے نشانہ بنے، جس کے نتیجے میں سینکڑوں جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے پاس ٹھوس شواہد ہیں کہ کابل حکام نہ صرف ان حملوں کو برداشت کر رہے ہیں بلکہ ان کی سرپرستی بھی کر رہے ہیں۔
ٹی ٹی پی کے علاوہ، بی ایل اے اور مجید بریگیڈ بھی افغانستان میں موجود دیگر دہشت گرد گروہوں کے ساتھ مل کر پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی تعاون، بالخصوص سی پیک کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پاکستانی مندوب نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی رپورٹ “افغانستان کی صورتحال اور اس کے بین الاقوامی امن و سلامتی پر اثرات” میں دہشت گردی کے تذکرے کے فقدان پر شدید حیرت اور مایوسی کا اظہار کیا۔
انہوں نے واضح کیا کہ ہمیں یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ اقوام متحدہ کے مشن (UNAMA) کا مینڈیٹ دہشت گردی سے متعلق نہیں، جبکہ اقوام متحدہ کے محکمہ برائے انسدادِ دہشت گردی (OCT) کے کام میں افغانستان اور وسطی ایشیا شامل ہیں لیکن پاکستان، ایران، چین یا روس نہیں، حالانکہ پاکستان روزانہ دہشت گرد حملوں کا سامنا کر رہا ہے۔
سفیر منیر اکرم نے اعلان کیا کہ پاکستان اقوام متحدہ میں ایک مناسب لائحہ عمل تشکیل دینے کے لیے مشاورت کا آغاز کرے گا، جس میں دوحہ عمل کے تحت انسدادِ دہشت گردی پر ایک ورکنگ گروپ قائم کیا جائے گا۔
انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان اپنی قومی سلامتی کو لاحق دہشت گرد خطرات کو ختم کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا، جو کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور بین الاقوامی قانون کے تحت اس کے حقِ دفاع میں شامل ہے۔
انہوں نے 27 ستمبر 2024 کو چین، ایران، پاکستان اور روس کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں افغانستان سے دہشت گردی کے خاتمے کے مشترکہ عزم کو بھی خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ پاکستان اپنے علاقائی اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف کوششیں جاری رکھے گا۔
سفیر منیر اکرم نے افغان بحران کے دوران پاکستان کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کی، دہشت گردی کے خطرات کا مقابلہ کیا، اور 2021 میں غیر ملکی افواج کے انخلا کے دوران نیٹو اہلکاروں اور افغان شہریوں کے محفوظ انخلا میں سہولت فراہم کی۔
انہوں نے افغانستان میں انسانی بحران پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عالمی برادری سے 20 ملین سے زائد ضرورت مند افغان عوام کے لیے فوری اور غیر مشروط امداد فراہم کرنے کی اپیل کی۔ انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ اقوام متحدہ کے افغانستان کے اسٹریٹجک فریم ورک کو 2025 کے لیے درکار 2.53 ارب ڈالر میں سے صرف 11% فنڈنگ ملی ہے، جو کہ ناکافی ہے۔
سفیر منیر اکرم نے کہا کہ افغانستان کی معاشی بحالی کے لیے اس کے مرکزی بینک کے منجمد اثاثے بحال کیے جانے چاہئیں تاکہ مالیاتی نظام مستحکم ہو اور غیر قانونی رقوم دہشت گردوں کے ہاتھوں میں جانے سے روکی جا سکیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کو سرحد پار دہشت گردی اور غیر قانونی تجارت پر قابو پا کر پاکستان کے ساتھ دوطرفہ اقتصادی تعاون کو فروغ دینا ہوگا۔
سفیر منیر اکرم نے خطے میں ترقی اور استحکام کے لیے TAPI گیس پائپ لائن، CASA-1000 بجلی منصوبہ، اور ازبکستان-افغانستان-پاکستان ریلوے منصوبے جیسے اہم اقدامات پر عمل درآمد کی ضرورت پر زور دیا، جو نہ صرف تجارتی تعلقات کو فروغ دیں گے بلکہ روزگار کے مواقع بھی پیدا کریں گے۔
پاکستانی مندوب نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ پاکستان نے داعش-خراسان (ISIL-K) کے دہشت گردوں کو افغانستان سے داخل ہونے سے کامیابی سے روکا اور ان کے ملک میں بیرونی آپریشنز کے قیام کی کوششوں کو ناکام بنایا۔
انہوں نے اقوام متحدہ کی القاعدہ و داعش مانیٹرنگ ٹیم کی 35ویں رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستانی حکام نے کئی اعلیٰ سطحی دہشت گردوں کو گرفتار کیا، جن میں محمد شریفللہ بھی شامل تھا، جو 2021 میں امریکی انخلا کے دوران ایبے گیٹ بم دھماکے میں ملوث تھا۔
سفیر منیر اکرم نے افغانستان میں جلد از جلد معمول کے حالات کی بحالی پر زور دیتے ہوئے دوحہ عمل کے تحت ایک جامع حکمتِ عملی اپنانے کی تجویز دی۔
انہوں نے 2023 میں خصوصی رابطہ کار فرِدون سینرلیوگلو کی آزادانہ تشخیص کا حوالہ دیتے ہوئے انسدادِ دہشت گردی، انسانی حقوق اور جامع حکمرانی کو دوحہ عمل میں شامل کرنے پر زور دیا۔
پاکستان نے ایک مشترکہ “روڈ میپ” کی حمایت کی، جس کے تحت افغان عبوری حکومت اور عالمی برادری کو سیاسی شمولیت، معاشی بحالی اور پابندیوں میں نرمی کے لیے اقدامات اٹھانے ہوں گے، تاکہ افغانستان میں طویل المدتی استحکام کو یقینی بنایا-
DATE . Mar/11/2025


