ایرانی شہریوں کی برصغیر میں آمد تو کئی صدیوں سے جاری تھی لیکن یہاں کے جدید شہروں میں آبادی میں آنا اور کاروبار میں شمولیت کا پتہ 20ویں صدی کی ابتدا سے ملتا ہے۔
آرکیٹیکٹ اور ریسرچر ماروی مظہر کہتی ہیں کہ 20ویں صدی میں ایران کی کوئی اچھی تاریخ نہیں رہی، ہنگامہ آرائی، عالمی جنگیں، قحط اور خشک سالی، بغاوت اور انقلاب سب نے ایک ساتھ جنم لیا، اس غیر مستحکم ماحول میں کئی ایرانیوں نے روشن مستقبل کی تلاش میں ہجرت کی۔

’انھیں بمبئی اور کراچی میں ایک اچھی جگہ ملی اور یہ ہی وہ وقت تھا جب یہاں ایرانی کیفے کی آمد ہوئی۔‘
کتاب ’اس دشت میں ایک شہر تھا‘ کے مصنف اقبال اے رحمان مانڈویا لکھتے ہیں کہ ایرانی برادری کا کراچی آ کر آباد ہونا زیادہ پرانی بات نہیں مگر 20ویں صدی کے اوائل میں جب کراچی کے شہری سہولیات و ادب سے مانوس ہوئے تو بغرض کاروبار ایرانی برادری کی کراچی میں آمد شروع ہوئی۔
کراچی کے قدیم کوچہ کھارادر میں متعدد ایرانی خاندان آباد تھے جو زیادہ تر قالین اور خشک میوہ جات کے کاروبار سے منسلک تھے۔
بمبئی بازار میں ان کے دفاتر اور دکانیں تھیں۔ ان میں مسلمان، پارسی اور بہائی مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے۔ یوں بتدریج ہوٹل اور بیکری کے کام سے وابستہ افراد کی تعداد بڑھتی گئی۔ کچھ ہی عرصے بعد شہر کے معروف ریستوران اور بیکریاں ایرانی ہی چلا رہے تھے۔
کتاب ’ایسا تھا میرا کراچی‘ کے مصنف محمد سعید جاوید لکھتے ہیں کہ حیرت انگیز طور پر کراچی میں ایرانی باشندوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ ان میں زیادہ تر لوگ بڑی کامیابی سے مختلف علاقوں میں ریستوران چلاتے تھے جن کو ’ایرانی ہوٹل‘ کہا جاتا تھا جو تقریباً شہر کی ہر سڑک اور چوراہے پر موجود ہوتے تھے۔ ایک وقت تو ایسا بھی تھا کہ کراچی کے ایسے ہوٹلوں پر ان کی مکمل اجارہ داری تھی۔

ایرانی پکوان اور مقامی مسالے
آئی آئی چندریگر روڈ اور ضیاالدین روڈ کے سنگم پر واقعے ’خیر آباد ریستوران‘ کو ایرانی خاندان کی چوتھی نسل سنبھالتی ہے۔
خیر آباد ریستوران کے مالک عباس علی کے مطابق 1932 میں ان کے پر دادا نے یہ کاروبار شروع کیا تھا۔ اس وقت یہ ایک چائے خانہ تھا بعد میں انھوں نے یہاں ایرانی پکوان متعارف کیے۔
عباس علی کا تعلق ایران کے علاقے یزد سے ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’جو پاکستانی زیارت پر ایران جاتے تھے انھیں وہاں ایرانی پکوان پسند آتے۔ ہم اس ذائقے کو یہاں لیکر آگئے لوگوں نے اس کو خوش آمدید کہا۔‘
عباس اپنے ریستوران کے پکوانوں کے ذائقے میں بدلاؤ پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’پہلے یہاں بہت سے ایرانی گاہک آتے تھے تو چند کھانے خالص ایرانی تھے۔ جب سے ایرانی گاہکوں کا آنا کم ہوا تو مجبوری میں انھوں نے پکوان کی ترکیب میں مرچ مسالہ بڑھا دیا، جیسے چلو کباب، چلو تکہ وغیرہ سب وہ ہی ہے لیکن اس میں مسالوں کا اضافہ کر دیا۔
کراچی میں ایرانی ہوٹل صبح سات بجے کھلتے ہیں جہاں ناشتے سے لے کر رات کا کھانا تک دستیاب ہوتا ہے لیکن بعض ہوٹل آٹھ بجے کے بعد بند ہو جاتے ہیں۔
عباس علی کہتے ہیں کہ ان کے پاس ہر قسم کے کھانے ہوتے ہیں، یہاں گاہک اپنی جیب دیکھ کر کھا سکتا ہے یعنی دال سے لیکر کڑاہی اور جھینگا مچھلی سب دستیاب ہے۔