نیویارک () چین کے وزیر اعظم لی چھیانگ نے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں چین کی میزبانی میں منعقدہ عالمی ترقیاتی اقدام پر اعلی سطح اجلاس سے خطاب کیا۔ اس موقع پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس، پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف اور 30 سے زائد ممالک کے وزراء،اعلی سطح کے اہلکار اور بین الاقوامی تنظیموں کے سربراہان موجود تھے۔جمعرات کے روز
اپنے خطاب میں لی چھیانگ نے زور دے کر کہا کہ چین فریقین کے ساتھ مل کر عالمی ترقیاتی اقدام کو مزید آگے بڑھانے، اقوام متحدہ کے 2030 پائیدار ترقی کے ایجنڈے پر تیزی سے عمل درآمد کرنے اور عالمی ترقی کے کاموں میں نئی جان ڈالنے کا خواہاں ہے۔ اس سلسلے میں لی چھیانگ نے چار تجاویز پیش کیں: اول، ایک مستحکم اور کھلے بین الاقوامی ترقیاتی ماحول کی تشکیل، جس میں اقوام متحدہ کے مرکزی کردار کی بنیاد پر بین الاقوامی نظام کی مشترکہ حفاظت، کثیرالجہت اور آزاد تجارت پر اصرار، اور کھلی معیشت کی حامل عالمی معیشت کی تعمیر کے لیے کوشش کرنا شامل ہے۔ دوم، متوازن اور ہمہ گیر ترقیاتی شراکت داری کی تعمیر، جس میں ترقی پذیر ممالک کی ضروریات کا زیادہ خیال رکھنا اور غیر متوازن اور کم ترقی کے مسائل کو فعال طور پر حل کرنا شامل ہے۔ سوم، مستقبل کی ضروریات کے پیش نظر جدت طرازی پر مبنی ترقی کی بنیاد رکھی جائے، جس میں بین الاقوامی سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں تعاون کو مضبوط بنانا، “دیواریں کھڑی کرنے اور رکاوٹیں پیدا کرنے” کی مخالفت کرنا، اور یہ یقینی بنانا شامل ہے کہ اختراعی ترقی واقعی پوری دنیا کو فائدہ پہنچائے۔ چہارم، زیادہ پائیدار سبز اور کم کاربن والی ترقی کو فروغ دینا، جس میں عالمی توانائی کے شعبے میں تعاون کو مضبوط بنانا اور انسان اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی پر مبنی زیادہ پائیدار ترقی کے حصول کے لیے مل کر کوشش کرنا شامل ہے۔
وزیر اعظم لی چھیانگ کی طرف سے پیش کردہ چار تجاویز عالمی ترقی کے مسائل کے لیے انتظامی حل فراہم کرتی ہیں، جن کا مقصد موجودہ عالمی ترقی کو درپیش عدم توازن اور قوت کی کمی جیسے بنیادی چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہے۔ اسی دوران چین نے عہد کیا ہے کہ چین ہمیشہ مشترکہ ترقی کا حامی اور فروغ دینے والا رہے گا، اور زیادہ فعال اقدامات کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ جاری رکھے گا۔ چین عالمی ترقی میں سرمایہ کاری جاری رکھے گا، عالمی ترقی کے لیے سائنس اور ٹیکنالوجی کے تعاون کو مضبوط بنائے گا، اور عالمی ترقی کی سبز تبدیلی کو فعال طور پر فروغ دے گا۔
چینی وزیر اعظم کے خطاب میں ایک نکتہ خاص طور پر قابل ذکر تھا، اور وہ یہ کہ چین نے عہد کیا ہے کہ بطور ذمہ دار ترقی پذیر ملک، ڈبلیو ٹی او کے موجودہ اور مستقبل کے مذاکرات میں چین نئے خصوصی اور متفاوت سلوک (ایس اینڈ ڈی ٹریٹمنٹ) کی مراعات حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ اس عہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین کی وکالت کرنے والا باہمی تعاون پر مبنی فائدہ محض ایک خالی نعرہ نہیں ہے، بلکہ یہ خود پر زیادہ بین الاقوامی ذمہ داریاں عائد کرنے کی بنیاد پر قائم ہے۔ چین نے 2001 میں ڈبلیو ٹی او میں شمولیت کے بعد، خصوصی اور متفاوت سلوک کی مراعات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، اپنی ذمہ داریاں بھی فعال طور پر پوری کی ہیں اور عالمی تجارت کی آزادی اور سہولت کے لیے اہم شراکت کی ہے۔ اب چین کا نئی خصوصی اور متفاوت سلوک کی مراعات حاصل نہ کرنے کا عہد چین کے کثیرالجہتی تجارتی نظام کی حمایت کرنے کے مستقل موقف کو مزید اجاگر کرتا ہے۔ یہ عہد ڈبلیو ٹی او پر بین الاقوامی برادری کے اعتماد کو مضبوط بنانے اور ڈبلیو ٹی او کی اصلاحات کو زیادہ منصفانہ اور معقول سمت میں آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوگا۔ ساتھ ہی چین نے زور دیا ہے کہ وہ ترقی پذیر ممالک کے جائز حقوق اور مفادات کا تحفظ جاری رکھے گا، جو چین کے بطور ترقی پذیر ملک کے ذمہ دارانہ شعور اور عزم کا مظہر ہے، اور بین الاقوامی سطح پر ترقی پذیر ممالک کے لیے زیادہ آواز اور ترقی کے مواقع حاصل کرنے میں معاون ہوگا۔
چینی وزیر اعظم کی طرف سے پیش کردہ چار تجاویز اور ڈبلیو ٹی او مذاکرات میں چین کے موقف کی وضاحت چین کی جانب سے عالمی ترقی کے لیے دی گئی سوچ اور طاقت ہے، جو نہ صرف عالمی ترقی کے کاموں کے لیے چین کی اعلیٰ توجہ اور فعال ذمہ داری کو ظاہر کرتی ہے، بلکہ عالمی معیشت کی بحالی اور پائیدار ترقی کے لیے نئی قوت بھی فراہم کرے گی۔ مستقبل کی ترقی میں، چین مسلسل مختلف ممالک کے ساتھ مل کر عالمی ترقیاتی اقدام پر عمل درآمد کو آگے بڑھاتے ہوئے عالمی ترقی کے کاموں کو مسلسل نئی بلندیوں پر پہنچائے گا۔
DATE . Sep/25/2025