
نیویارک :اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 1267 القاعدہ پابندی کمیٹی کی سربراہ نے افغان طالبان کی پشت پناہی میں سرگرم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے باعث پیدا ہونے والے “سنگین خطرے” سے خبردار کیا ہے، یہ کہتے ہوئے کہ اس دہشت گرد گروہ نے افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف متعدد ہائی پروفائل حملے کیے ہیں، “جن میں سے کچھ میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا۔
اقوام متحدہ میں ڈنمارک کی نائب مستقل نمائندہ اور کمیٹی کی چیئر، سفیر ساندرا جینسن لینڈی نے سلامتی کونسل کو اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ “تقریباً 6,000 جنگجوؤں پر مشتمل ٹی ٹی پی، خطے سے ابھرنے والے ایک اور سنگین خطرے کی نمائندگی کرتی ہے، جسے ڈی فیکٹو (طالبان) حکام کی جانب سے نہ صرف لوجسٹک بلکہ بھرپور عملی مدد بھی مل رہی ہے۔
انہوں نے یہ بیان اُس وقت دیا جب 15 رکنی سلامتی کونسل کو اس کی تین ذیلی کمیٹیوں — داعش/القاعدہ، اقوام متحدہ کے انسدادِ دہشت گردی کے اقدامات، اور غیر ریاستی عناصر کو تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی منتقلی روکنے کے بارے میں قائم کمیٹیوں کے سربراہان نے بریفنگ دی۔ کونسل کو بتایا گیا کہ دہشت گردی کا خطرہ مسلسل ارتقا پذیر ہے، خصوصاً افریقہ میں، جہاں تخریبی عناصر نئی ٹیکنالوجیز کا استعمال خطرناک مقاصد کے لیے کر رہے ہیں۔
رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں پاکستان کے نائب مستقل مندوب، عثمان جدون نے پاکستان کو عالمی انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں میں ایک فرنٹ لائن ریاست قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے اس لعنت کے خاتمے کے لیے بے مثال قربانیاں دی ہیں — 80 ہزار سے زائد جانوں کا نقصان اور کھربوں روپے کے معاشی خسارے۔ انہوں نے مزید کہا کہ القاعدہ کا خاتمہ بڑی حد تک پاکستان کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری بہادر سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے افغانستان سے پھوٹنے والے دہشت گردی کے خطرے کا مقابلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، جہاں داعش خراسان (ISIL-K)، ٹی ٹی پی اور اس کے نیٹ ورکس، بی ایل اے (بلوچستان لبریشن آرمی) اور اس کا مجید بریگیڈ اپنے میزبانوں کی سرپرستی میں، اور ہمارے بنیادی مخالف اور خطے کے بڑے ڈِسٹیبِلائزر کی پشت پناہی کے ساتھ پروان چڑھ رہے ہیں۔” انہوں نے بھارت کا نام لیے بغیر یہ بات کہی۔
سفیر جدون نے کہا کہ 1267 کمیٹی کے پابندی نظام کو “زمینی حقائق کی ترجمانی” کرنی چاہیے، اور لسٹنگ و ڈیلِسٹنگ کے معاملات کو “منصفانہ، شفاف اور غیر سیاسی بنیادوں پر” نمٹایا جانا ضروری ہے۔
پاکستانی مندوب نے مزید زور دیا کہ “صفر برداشت (ZERO TOLERANCE)” کے مؤقف کو مؤثر بنانے کے لیے اقوام متحدہ کی انسدادِ دہشت گردی ساخت کو ایسے اوزار بھی رکھنے چاہئیں جن سے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے پرتشدد، دائیں بازو کے انتہاپسند، الٹرا نیشنلِسٹ، زینو فوبک اور اسلام مخالف گروہوں کو بھی نامزد کیا جا سکے۔
چین کے نمائندے نے اپنی جانب سے کمیٹی کے ارکان پر زور دیا کہ وہ بلوچستان لبریشن آرمی اور اس کے مجید بریگیڈ کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے کی حمایت کریں، تاکہ “دہشت گردی کے لیے صفر برداشت کا مضبوط پیغام” دیا جا سکے۔
DATE . Nov/21/2025


