چینی سافٹ پاور کا عروج عالمی نوجوانوں کا مشترکہ نقطہ نظر اور دور حاضر کا تقاضا ہے، چینی میڈیابیجنگ () برطانوی میگزین “دی اکانومسٹ” نے حال ہی میں اور امریکی ادارہ برائے رائے عامہ گلوب سکین نے چین کے علاوہ دنیا کے 32 ممالک کے 32,000 افراد سے ایک وسیع پیمانے پر نسبتاً غیر جانبدارانہ سروے کیا ہے۔ 2024 کے اسی عنوان پر ہونے والے سروے کے نتائج کے موازنے سے پتہ چلتا ہے کہ چین کو عالمی “قیادت” کے طور پر ترجیح دینے والوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، اور چینی سافٹ پاور کے عروج کا اظہار ہوتا ہے۔ اس سروے میں شرکاء سے بنیادی سوال پوچھا گیا: “آپ چاہیں گے کہ دنیا کی سپر پاور چین بنے یا امریکہ ؟” نتائج کے مطابق اوسطاً 33 فیصد شرکاء نے چین کا انتخاب کیا، جبکہ 46فیصد نے امریکہ کو ترجیح دی۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ تمام اہم ممالک میں چین کے حق میں رائے دینے والوں کی شرح میں اضافہ جبکہ امریکہ کے حامیوں کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔یہ سروے اس سال جولائی سے ستمبر کے دوران کیا گیا، جب ٹرمپ عالمی سطح پر ٹیرف جنگ چھیڑ رہا تھا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ نتائج نہ صرف چین کے تیزی سے ابھرنے کی عکاسی ہیں بلکہ امریکی حکومت کی دوسرے ممالک کے خلاف کی گئی کارروائیوں کا نتیجہ بھی ہے۔ سروے کے مطابق عالمی سافٹ پاور کی درجہ بندی میں امریکہ پہلے نمبر پر ہے، جبکہ چین دوسرے نمبر پر ہے اور دیگر تمام ممالک سے آگے ہے۔ عمر کے لحاظ سے درجہ بندی میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 18 سے 24 سال کے نوجوانوں میں چین اور امریکہ کے درمیان انتخاب تقریباً برابر ہے۔ 39فیصد نے چین کا انتخاب کیا، جبکہ 41فیصد نے امریکہ کا۔ خطے کے لحاظ سے، افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں نصف سے زیادہ شرکاء نے چین کو ترجیح دی، جبکہ انڈونیشیا میں 62فیصد افراد نے چین کے حق میں ووٹ دیا۔ اس سے چین کے “بیلٹ اینڈ روڈ” اقدامات سے ان ممالک میں حقیقی ترقی اور پیشرفت کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ لاطینی امریکہ، شمالی امریکہ اور یورپ کے برازیل، کینیڈا اور اسپین جیسے ممالک میں بھی چین کے حق میں رائے میں تقریباً 20 فیصد پوائنٹس کا اضافہ ہوا ہے۔ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ امریکی عوام میں چینی قیادت کے حوالے سے حمایت دوگنی ہو گئی ہے: 40فیصد امریکیوں کا خیال ہے کہ چین کا عالمی اثر “بنیادی طور پر مثبت” ہے، جبکہ ٹرمپ کی پہلی مدت میں یہ شرح محض 15فیصد تھی۔ عالمی صورتحال میں تبدیلی کے اس دور میں چینی سافٹ پاور ریکارڈ رفتار سے ابھر رہی ہے، اور اس تبدیلی کی بڑی وجہ عالمی نوجوان نسل میں چین کے حوالے سے بڑھتا ہوا اعتماد اور توقعات ہیں۔ یہ رجحان ایک طرف چین کی خودانحصاری اور مضبوط معیشت کا مرہونِ منت ہے تو دوسری طرف امریکہ کی خودساختہ پالیسیوں کا نتیجہ بھی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیاں نادانستہ طور پر چینی سافٹ پاور کے عروج کا “ایندھن” بن گئی ہیں، جس کے نتیجے میں عالمی نوجوانوں میں چین کے حوالے سے شناخت اور توقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ جب امریکہ نے چین کے خلاف میڈیا مہم چلانے والے اداروں کی سبسڈی کم کی، اور جب امریکہ کی ٹیرف جنگ نے عالمی برادری میں منفی کردار ادا کیا تو دنیا نے چین کو زیادہ غیر جانبدارانہ نظر سے دیکھنا شروع کیا۔ اب بین الاقوامی میڈیا پر چین کے بارے میں مثبت رپورٹس بتدریج بڑھ رہی ہیں، اور غیر ملکی سوشل میڈیا پر چین کی تعریف کرنے والے مواد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ معیشت، ٹیکنالوجی اور دفاع جیسے شعبوں میں چین کی ہارڈ پاور میں تیزی سے ترقی ہوئی ہے، جس نے اس کی سافٹ پاور کو مضبوط بنیاد فراہم کی ہے۔ بلاشبہ، چینی سافٹ پاور کے عروج کے متعدد اندرونی محرکات ہیں: اول، “بیلٹ اینڈ روڈ” اقدام نے ترقی پذیر ممالک کو ترقی کے مواقع فراہم کیے ہیں، جس سے چین کی مثبت شبیہہ ان ممالک کے عوام کے دلوں میں ابھری ہے۔ دوم، چین کی عالمی سطح پر معیاری مصنوعات اور تحقیقی ٹیکنالوجیز جیسے اوپن سورس AI ماڈلز، ہیومینائڈ روبوٹس، چھٹی نسل کے جنگی طیارے، اور ٹیانگونگ اسپیس اسٹیشن جیسی کامیابیوں نے “امریکی ٹیکنالوجی کی برتری ” کے روایتی تصور کو چیلنج کیا جس سے دنیا کو یقین ہو گیا ہے کہ چین ٹیکنالوجی کے میدان میں امریکہ کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ سوم، چین نے امریکہ کے ساتھ تجارتی جنگ میں ڈٹ کر مقابلہ کیا اور بالآخر فتح حاصل کی، جس سے دنیا نے چین کی طاقت اور ذمہ داری کو دیکھا اور یقین کیا کہ چین ہی وہ واحدطاقت ہے جو امریکہ کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ چہارم، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے مغربی روایتی میڈیا کی چین کے خلاف منفی پروپیگنڈا مہم کو ناکام بنا دیا ہے، جس کے ذریعے غیر ملکی نوجوانوں نے چین کی حقیقی تصویر دیکھی ہے۔ چین کا سفر کرنے والے غیر ملکی بلاگرز نے بھی دنیا کو مغربی میڈیا کے بیانیے سے یکسر مختلف چین دکھایا ہے۔ چینی سافٹ پاور کا عروج دنیا بھر کے نوجوانوں کا مشترکہ تصور میں ڈھلتا جا رہا ہے، جو چین کی اپنی ترقی کا نتیجہ ہے۔ مستقبل قریب میں چین کی مسلسل ترقی سے اس کی سافٹ پاور میں مزید اضافہ ہوگا، اور یہ رجحان دنیا کو ایک حقیقی، ترقی پذیر اور متحرک چین دکھائے گا، جس کا عالمی صورتحال پر گہرا اثر ہوگا۔ البتہ، کچھ ممالک جیسے جاپان اور بھارت، تاریخی اور موجودہ تنازعات کی بنا پر چین کے بارے میں منفی جذبات رکھتے ہیں۔ ان ممالک کے سروے کے نتائج کے بارے میں، میرا خیال ہے کہ بہت سے لوگ ان پر زیادہ توجہ نہیں دیں گے۔