پاکستان میں کھانے پینے کے شوقین لوگوں میں ڈونر کباب کافی مقبول ہے۔ یہاں اسے ترک کھانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ تاہم جرمنی ڈونر کباب تخلیق کرنے کا دعویٰ کر رہا ہے۔
حال ہی میں ڈونر کباب کی وجہ سے ترکی اور جرمنی کے درمیان ایک تنازع کھڑا ہوا ہے۔
جرمنی میں ڈونر کباب رول اتنا مشہور ہے کہ یہاں شہری اسے بیچ رات کی بھوک مٹانے کے لیے سنیک کی طرح کھاتے ہیں۔ سیاحت پر مبنی ویب سائٹ ’وزٹ برلِن‘ کے مطابق جرمنی کے دارالحکومت برلِن میں ڈونر کباب کی ایک ہزار سے زائد دکانیں ہیں جو دیر رات تک کھلی رہتی ہیں۔
جرمن شہریوں کو ڈونر کباب اس کی آسان اور لذیذ بناوٹ کی وجہ سے پسند ہے۔ گائے کے گوشت کو اچھی طرح مسالے لگا کر پکایا جاتا ہے۔
پھر گوشت کے چھوٹے ٹکڑے کاٹے جاتے ہیں اور انھیں پیٹا بریڈ پر رکھا جاتا ہے۔ اس پر تازہ سلاد اور لہسن کا پیسٹ ملا دہی بھی ڈالا جاتا ہے۔
تاہم ڈونر کباب کو اس ترکیب کے ساتھ بنایا اور کھایا جاتا ہے اور کہا یہ جاتا ہےکہ یہ جرمنی کی ایجاد ہے جبکہ ترکی میں ڈونر کباب کو چاول اور سلاد کے ساتھ ایک روایتی طریقے سے کھایا جاتا ہے۔
حال ہی میں ترک حکومت نے یورپی کمیشن کو ایک درخواست دی ہے کہ ڈونر کباب کو سرکاری طور پر ترک کھانوں میں شمار کیا جائے نا صرف یہ بلکہ اسے ترکی کی ایجاد بھی قرار دیا جائے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے اٹلی کے لیے ’نیپولیٹن پیزا‘ اور سپین کے لیے ’سرانو ہیم‘ ہے۔
اگر ترکی کی درخواست قبول کر لی جاتی ہے تو صرف وہی کباب ڈونر کباب کہلائیں گے جنھیں ترک ترکیب کی سختی سے پیروی کر کے تیار کیا جاتا ہے اور روایتی انداز میں یعنی چاول اور سلاد کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔
تاہم اگر ایسا ہو گیا تو برلِن میں تیار ہونے والے وہ ’ڈونر کباب‘ جنھیں لوگ چلتے پھرتے کھا لیتے ہیں انھیں ڈونر کباب نہیں بلکہ کُچھ اور کہا جائے گا۔
ترکی کی اس درخواست کے خلاف جرمنی کی 11 تنظیموں نے بھی اپنے ’ڈونر کباب‘ کا دفاع کیا ہے اور ترکی کی درخواست کے خلاف اپنے اعتراضات درج کروائے ہیں، جن میں جرمنی کی وفاقی وزارت خوراک اور زراعت بھی شامل ہے۔
وفاقی وزارت خوراک اور زراعت کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ترکی کی جانب سے درج کی گئی درخواست پڑھ کر ہمیں خاصی حیرانی ہوئی۔‘

،تصویر کا ذریعہAlamy
بیان میں کہا گیا کہ ’ڈونر کباب جرمن ثقافت کا حصہ ہے اور اس کی تیاری کے مختلف طریقے ہمارے ملک کے تنوع کی عکاسی کرتے ہیں۔ اسے ہر حال میں برقرار رکھنا ہو گا۔‘
’جرمنی میں ڈونر کباب کے بہت سے فینز کو خوش رکھنے کے لیے ہم پرعزم ہیں کہ ڈونر کباب اسی طرح تیار ہوتا رہے جیسا کہ اسے یہاں بنایا اور کھایا جاتا ہے۔‘
وزٹ برلن کے مطابق ڈونر کباب کا برلن ورژن، جو بعد ازاں پورے ملک میں مقبول ہو گیا، 1970 کی دہائی کے اوائل میں تخلیق کیا گیا تھا۔ تاہم جرمنی میں اس کی تخلیق پہلے کس نے کی، اس کے دو دعویدار ہیں۔
عالمی جنگ کے بعد جرمنی میں ترک تارکین وطن کی بڑی تعداد داخل ہوئی جنھوں نے اقتصادی ترقی کے لیے کام کیا۔ بطور ’مہمان ورکر‘ مہمت ایگن اور قادر نورمان ترکی سے یہاں آئے۔
ان کے مطابق انھوں نے روایتی ترک ڈونر کباب لیا، اسے کھانے میں آسان بنانے کے لیے پیٹا روٹی استعمال کر کے اس کا سینڈوچ بنا دیا۔ برلن میں قائم ’ایسوسی ایشن آف ترکش ڈونر پروڈیوسرز اِن یورپ‘ کے مطابق ڈونر کباب کی جرمنی میں سالانہ 2.3 ارب یورو جبکہ یورپ میں 3.5 ارب سالانہ فروخت کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
جرمنی میں اس کی قیمت کی وجہ سے اسے سیاسی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا گیا جب ملک کی بائیں بازو کی سیاسی پارٹی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ڈونر کی قیمت پر ’کیپ‘ لگایا جائے۔ تاہم حکومت نے یہ مطالبہ مسترد کر دیا۔
ڈینیز بحوز کے مطابق اس سینڈوچ کی جرمنی میں اتنی مقبولیت اور اس کا یہاں کے روزمرّہ کھانوں میں شامل ہو جانا اُن دو ترک شہریوں کی ایک بڑی کامیابی ہے۔
ڈینیز خود ترک نژاد جرمن ہیں جو برلن میں ترک کھانوں کا ریستوران چلاتے ہیں۔ ان کے ریستوران میں ڈونر کباب کو نئے ذائقوں کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔
اس معاملے پر اظہار خیال کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ مہمت ایگن اور قادر نورمان کے ڈونر کباب بنانے کی ترکیب کے بارے میں کبھی کچھ لکھا نہیں گیا۔

،تصویر کا ذریعہKebap With Attitude
’ان کی ترکیبیں لوگوں کے درمیان بات چیت کے ذریعے پھیلی ہیں۔ اس وقت معاشرے میں ان کے کام کی کوئی قدر نہیں تھی لیکن انھوں نے جو بھی کیا پورے یقین کے ساتھ کیا۔‘
جن ذائقوں اور طریقوں کے ساتھ ڈینیز بحوز ڈونر کباب تیار کرتے ہیں وہ ترکی کی درخواست کے مطابق کم از کم ’ڈونر کباب‘ نہیں کہلائے جائیں گے۔
ڈینیز بحوز اپنے رستوران میں ڈونر کو گوشت کے بجائے چکن سے بناتے ہیں اور اس میں آم کی چٹنی اور ہرے دھنیے اور تِل سے بنا ہوا ایک مرکب ڈالتے ہیں۔
ان کا ایک ڈونر صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو صرف سبزیاں کھاتے ہیں۔
تاہم ترک حکومت کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں ڈونر کباب بنانے کے کچھ دائرہ کار دیے گئے ہیں۔ ان کے مطابق گوشت کا ایک سلائیس تین سے پانچ ملی میٹر چوڑھا ہونا چاہیے۔ ڈونر کباب بنانے کے لیے جس گوشت کا استعمال کیا جائے وہ ایسی گائے سے آئے جس کی عمر کم از کم 16 ماہ ہو۔
اس کے علاوہ گوشت کو ایک مخصوص مقدار میں چربی، دہی یا دودھ، پیاز، نمک، جنگلی پودینے اور کالی اور لال مرچ لگا کر کُچھ وقت کے لیے رکھ دیا جاتا ہے تاکہ مسالے گوشت میں اچھی طرح سے رچ بس جاییں۔
تاہم ہر کسی کے نزدیک ڈونر تیار کرنے کی اس ترکیب کی سختی سے پیروی کرنا اتنا ضروری نہیں۔ کھانا پکانے کی تاریخ دان مریم آئن جنھوں نے ترکی کے کھانوں کی تاریخ کے بارے میں بڑے پیمانے پر لکھا ہے، کہتی ہیں کہ انھوں نے ترکی میں کئی دہائیاں گزاری ہیں۔ اس دوران انھوں نے ڈونر کباب کی ترکیب کو بدلتے دیکھا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ترکی میں آج کل ڈونر گائے کے گوشت سے بنایا جاتا ہے جبکہ ماضی میں ایسا نہیں تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میں 70 کی دہائی میں یہاں رہتی تھی اور اس وقت ڈونر بنانے کے لیے ہمیشہ دنبے کا گوشت استعمال کیا جاتا تھا۔ مجھے نہیں معلوم یہ کیسے ہوا لیکن کسی وجہ سے لوگوں کو لگنے لگا ہے کہ دنبے کا گوشت زیادہ چکنا ہوتا ہے اور یہ ان کی صحت کے لیے مضر ہے۔‘
’اب یہاں کئی لوگ دنبے کے گوشت کو ڈونر کباب کے لیے استعمال نہیں کرتے اور اس کے لیے صرف اور صرف گائے کا گوشت ہی استعمال کرتے ہیں۔‘
‘اور اگر میں کُچھ بھول نہیں رہا تو اس میں پیاز کے سلائسز ڈالے جاتے تھے۔ اس میں ٹماٹر اور مرچیں نہیں ڈلتی تھیں جو اب آپ کو کھانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہAlamy
مریم آئن نے ڈونر کباب کی تاریخ پر ایک تحقیق کی تھی جس کا نام تھا ’عثمانی کباب کلچر اینڈ دی رائز آف دی ڈونر کباب‘ یعنی ڈونر کباب کا عروج۔
مریم آئن کا کہنا ہے کہ ڈونر کباب کی تاریخ میں ’کئی وقفے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ڈونر کباب کا ذکر سنہ 1908 تک کسی عثمانی تحریر میں نہیں حالانکہ 17ویں صدی میں ایک فارسی نظم میں اس کی عکاسی کی گئی ہے۔‘
’اس کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ اس دور میں یہ موجود ہو گا کیونکہ آپ اچانک دیکھتے ہیں 19ویں صدی میں آپ کے پاس غیر ملکی سیاح آتے ہیں اور ڈونر کباب کے بارے میں بات کر رہے ہوتے ہیں۔‘
’ایسا لگتا ہے کہ جیسے ڈونر کباب اتنی معمول کی بات تھی کہ کسی مقامی شہری نے اس کے بارے میں لکھنا ضروری ہی نہیں سمجھا۔‘
عثمانی کھانوں میں روایتی طور پر کباب یا بھنا گوشت کئی ڈشز کا حصہ ہے بشمول مٹن کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے جو سیخ پر پیش کیے جاتے ہیں (شیش کباب) اور تندور میں بھنا ہوا گوشت۔
ڈونر کباب اکثر پکنِک پر کھایا جاتا تھا کیونکہ اس کی تیاری باہر کھلی جگہ میں کی جاتی تھی۔ ایک گھومتی ہوئی سیخ پر گوشت گھوم رہا ہوتا تھا۔
ڈونر نام بھی ترک زبان کے لفظ ’ڈونمک‘ سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے کسی چیز کو موڑنا۔
ڈونر کباب کی تخلیق کے بارے میں ایک اور اشارہ ہمیں سنہ 1433 سے ملتا ہے جب ایک فرانسیسی سیاح نے اس کے بارے میں لکھا۔ انھوں نے بتایا کہ کچھ ترک شہریوں نے انھیں سیخ پر دنبہ روسٹ کر کے کھلایا۔
مریم آئن نے بتایا کہ ’پورا دنبہ پکنے کا انتظار کرنے کی بجائے وہ باہر سے گوشت کے ٹکڑے کاٹ رہے ہیں۔ ظاہر ہے آپ پورا دنبہ پکنے کا چار گھنٹے انتظار تو نہیں کریں گے نا؟‘
انھوں نے بتایا کہ پہلے سیخ افقی ہوتی تھی لیکن جب کباب گھر کھلنا شروع ہوئے تو اسے عمودی کر دیا گیا تاکہ جگہ کم گھیرے۔
تاہم جرمنی اور ترکی کے درمیان اس تنازع کا حل نکالنے کے لیے یورپی کمیشن نے دونوں ممالک کو ہدایت دی ہے اس معاملے پر بات کر کے کوئی بیچ کا راستہ نکالیں۔
اس مسئلے پر کوئی بھی معاہدہ دنیا میں ہر کسی کو راضی نہیں کر سکے گا، خاص طور پر ترکی میں جہاں ڈونر مقبول ترین برآمدات میں سے ایک ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
اوکو گنی، جو آسٹریلیا کے شہر سِڈنی میں ترک کھانوں کی تقریبات منعقد کرواتی ہیں، نے بتایا کہ بچپن میں وہ اپنے والدین کے ساتھ مل کر سڈنی کی فلیمنگٹن مارکیٹ میں ڈونر کباب فروخت کیا کرتی تھیں۔
’جب میں سکول سے گھر آتی تھی تو میں دیکھتی تھی کہ امی اور ابو ڈونر کباب بنانے کی تیاری کر رہے ہوتے تھے۔۔۔ اس پورے ڈونر کا وزن 50 کلو گرام ہوتا تھا۔‘
یہ لوگ آسٹریلیا میں بھی ڈونر کباب کو برلِن کی ترکیب کی طرح تیار کرتے ہیں۔ اس کی بوٹیوں کو پیٹا بریڈ میں رکھتے ہیں۔ اس کے ذائقے کو چار چاند لگانے کے لیے ساتھ میں ٹماٹر، سلاد کے پتے اور پیاز کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر چٹنیاں اور دہی کا رائتہ بھی شامل کیا جاتا ہے۔
اوکو گنی نے بتایا کہ ’قیمے میں پیاز اور سرخ شملہ مرچ، پھر اس میں پیپریکا، کالی مرچ، نمک اور تھوڑا سا زیرہ شامل کیا جاتا تھا۔‘
’ترکی کے کھانوں میں مسالوں کا زیادہ استعمال نہیں ہوتا۔‘
انھوں نے کہا کہ ڈونر کباب کے علاوہ ترکی کے اور بھی کئی کھانے ہیں جو دنیا بھر میں مشہور ہیں۔
‘ہم بند گوبھی سے رولز تیار کرتے ہیں جنھیں ’سرما‘ کہتے ہیں۔ سرما کے معنی ہوتے ہیں’لپٹا ہوا۔‘ یہ یوکرین اور بلغاریہ میں بھی تیار ہوتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’کھانا ایک ایسی چیز ہے جو ہم سب میں ایک نئی جان ڈال دیتا ہے اور نہ صرف یہ بلکہ ایک تعلق قائم کرتا ہے۔‘