Posla news

احمد فراز

یوسف نہ تھے مـــگر سرِ بازار آ گئے
خوش فہمیاں یہ تھیں کہ خریدار آ گئے

ھم کج ادا چراغ کہ جب بھی ہوا چلی
طاقوں کو چھوڑ کر سرِ دیوار آ گئے

پھر اس طرح ہُوا مجھے مقتل میں چھوڑ کر
سب چارہ ساز جانبِ دربار آ گئے

اَب دل میں حوصلہ نہ سکت بازوں میں ہے
اب کے مقابلے پہ میرے یار آ گئے

آواز دے کے زندگی ہر بار چُھپ گئی
ہم ایسے سادہ دل تھے کہ ہر بار آ گئے

سورج کی روشنی پہ جنہیں ناز تھا فراز
وہ بھی تو زیرِ سایۂ دیوار آ گئے

DATE . May/24/2025

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top